نصیب یا قسمت وہ خدائی تقسیم ہے جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے بندوں میں فرمادی ہے۔ لیکن ایسا بھی نہیں کہ بندہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائے اور تقسیم میں سے اس کا حصہ اس تک پہنچ جائے۔ ہر محنت کا صلہ ہے اور محنت جتنی ہوگی صلہ اتنا ہی ہوگا۔ نصیب اور قسمت کے کھیل میں خدا کے ’’امر‘‘ اور بندے کی محنت دونوں ہی کا عمل دخل ہے۔ اگر غور کیجئے تو بات اسی نصف اختیار کی ہے جو بندے کو حاصل ہے اور جس کا باقی نصف خدا نے اپنے پاس رکھ لیا ہے۔ یہ محنت کر کرکے ایک روز چاند پر پہنچ جاتا ہے، یہ اس کے اس نصف اختیار کا ہی کرشمہ ہے۔ اور یہ جو کہکشائیں اس کے شر سے محفوظ ہیں، یہ بھی اس کے نصف اختیار کی برکت ہے۔ اگر اس کے پاس مکمل اختیار ہوتا تو بھلا اسے محنت کرنی پڑتی ؟ اس کا محنت کرنا ہی اس کے ’’مجبور‘‘ ہونے کی دلیل ہے اور کون نہیں جانتا کہ مجبور وہی ہوتا ہے جس کے پاس پورا اختیار نہ ہو۔ نصف اختیار میں ہی اس کا یہ حال ہے کہ کروڑوں انسان اس دنیا سے اسی کی تیغ سے کوچ کر گئے تو سوچئے پورا اختیار ہوتا تو یہ کیا کچھ نہ کرتا ؟ یہ چاند تارے اس لئے سلامت نہیں کہ انسان نے انہیں سلامت رہنے کی اجازت مرحمت فرما رکھی ہے، بلکہ ان کے تحفظ کی اکلوتی گارنٹی حضرت انسان کا مکمل بااختیار نہ ہونا ہے۔ یہ پورا با اختیار ہوتا تو ’’زحل‘‘ پر نحوست کی صرف فرد جرم ہی عائد کرکے نہ بیٹھا ہوتا بلکہ کب کا اسے سزا دے کر مٹا بھی چکا ہوتا۔ اور یہ بااختیار ہوتا تو مشتری کو کب کا اپنی انگشتری کا نگینہ بنا چکا ہوتا۔ ہر انسان کے اندر اپنے حصے کادانشور موجود ہوتا ہے۔ اور اس دانشور کی اہم ترین ذمہ داریوں میں یہ شامل ہے کہ اگر اس کے ارد گرد کچھ اچھا صادر ہوجائے تو اسے اس کا ’’وژن‘‘ یا کسی بھی اور طرح کا کمال ثابت کرنے کے لئے ہمالیہ جتنے اونچے اور سمندروں جتنے گہرے دلائل مہیا کرے۔ لیکن اگر اس کے ارد گرد کچھ الٹا ہوجائے تو پھر ہنگامی طور پر اسے خدا کے کھاتے میں فٹ کرنے کا انتظام بھی کرے۔ مثلا بات عالمی افق کی ہو تو امریکہ کا ایٹم بم پہلے بن جانا امریکیوں کا کا کمال تھا جبکہ جاپان اور جرمنی کے ایٹم بم کا پہلے بن جانا ’’خدا کو منظور نہ تھاـ‘‘۔ سوویت یونین جو ٹکڑے ٹکڑے ہوا وہ ہمارا کمال تھا اور یہ جو امریکہ کا کچھ نہیں بگڑ پا رہا یہ خدا کو ایسا ہی منظور ہے۔ امریکہ ایک سپر طاقت ہے تو یہ اہلیان امریکہ کا کمال ہے اور ہم سپر طاقت نہیں ہیں تو اس کی کل وجہ یہ ہے کہ یہ خدا کو منظور نہ تھا۔ قرون اولیٰ کے مسلمان عظمت کا استعارہ تھے تو یہ ان کا کمال تھا لیکن یہ جو ہم تین میں ہیں نہ تیرہ میں یہ اس لئے ہے کہ خدا کو ایسا ہی منظور تھا۔ انفرادی معاملات پر آجائیں تو جس کی دکان اچھی چل رہی ہے وہ اسی کا کمال ہے اور جو مسلسل خسارے سے دوچار ہے اس کا نفع خدا کو منظور نہ تھا۔ جس کے بچے اچھے پڑھ رہے ہیں اور کلاس میں پوزیشنز لے رہے ہیں وہ اس کے بچوں کا کمال ہے اور جس کے بچے مسلسل فیل ہو رہے ہیں وہاں قصور خدا کا ہے کیونکہ یہ خدا ہی تو ہے جس کو ایسا ہی منظور تھا۔ جو سو دن تک کومے میں رہ کر عالم ہوش میں لوٹ آیا یہ اس کے اعصاب کا کمال ہے اور جو تیراکی نہ جاننے کے باوجود دریا میں اتر کر مر گیا وہ اپنی حماقت نہیں بلکہ ’’قضائے الٰہی‘‘ سے فوت ہوا۔ خلاصہ یہ کہ اگر اپنی کسی معقول حرکت کے نتیجے میں کچھ اچھا ظاہر ہوجائے تو وہ اپنا کمال ہے اور اپنی ہی کسی احمقانہ حرکت کے نتائج برے نکل آئیں تو بلا تاخیر ان نتائج کو خدا کے کھاتے میں فٹ کر دیا جاتا ہے۔ اور اس سے بھی زیادہ دلچسپ تماشا یہ کہ اپنے صرف خامیوں اور کوتاہیوں کے نتائج خدا کے کھاتے میں فٹ کئے جاتے ہیں جبکہ مخالف کی خوبیاں اور دلیریاں خدا کے کھاتے میں ڈالی جاتی ہیں۔ مثلا اگر چوہدری صاحب شیر سے لڑ کر اسے پچھاڑ دیں تو چوہدری صاحب کے نزدیک تو یہ بیشک ان کا کمال ہے لیکن چوہدری صاحب کے مخالفین کے نزدیک ’’قسمت اچھی تھی‘‘ ورنہ شیر سے کون جیت سکتا ہے ؟اس سے بھی زیادہ حیران کن وہ لمحہ ہوتا ہے جب یہ کسی اور کو بھی کریڈٹ دینے کا فیصلہ کر لیتا ہے، حیران کن اس لئے کہ یہ کریڈٹ یہ کچھ یوں دیتا ہے کہ اگر مریض ٹھیک ہوگیا تو ڈاکٹر کا کمال تھا، اور اگر مریض مر گیا تو خدا کو ایسا ہی منظور تھا۔ جوں ہی ہم سے کچھ غلط سرزد ہوجاتا ہے اور اس کے نتائج بھی غلط آجاتے ہیں تو ہم بلا تاخیر اس کا الزام خدا پر دھر دیتے ہیں۔ ہماری پوری حیات میں ہماری ہر کامیابی بس ہماری ہوتی ہے اور ہماری ہر ناکامی کا ذمہ دار صرف خدا ہوتا ہے۔ اور ہم اسی خدا کے آگے ہاتھ پھیلا کر دعائیں بھی مانگتے ہیں۔ یہ دعائیں اگر قبول ہوجائیں تو یہ بھی ہمارا کمال کیونکہ ہم مستجاب الدعوات ہیں اور قبول نہ ہوں تو خدا کو منظور نہ تھا۔