آج کل چینلز پر ’’اندرونی کہانی‘‘ کے نام سے چلنے والی خبریں خوب ’’ہٹ‘‘ ہو رہی ہیں۔ہٹ ہونے کا اردو مترادف نہ جانے کیا ہے۔شاید تیر بہدف۔ادھر کوئی خفیہ اجلاس‘دو افراد کی ملاقات یا کابینہ کا اجلاس ہوا‘ادھر چند لمحوں بعد اندرونی کہانی کے ’’ٹکر‘‘ سکرین پر چلنے لگے۔ارے بھئی‘اتنی جلدی اندرونی کہانی سامنے آ گئی تو پھر وہ اندرونی رہی کہاں‘وہ تو سراسر بیرونی کہانی ہو گئی اور مزے کی بات یہ ہے کہ یہ اندرونی کہانی ایک جیسے ’’ٹکرز‘‘ کے ساتھ سبھی ٹی وی سکرینوں پر چل رہی ہوتی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ اندر کا کوئی آدمی اندرونی کہانی وٹس ایپ پر سبھی چینلز کو ارسال کر دیتا ہے۔ خیر‘ابھی دو تین دن پہلے گورنر پنجاب چودھری سرور کی سپیکر پرویز الٰہی سے ’’خفیہ‘‘ ملاقات ہوئی اور ملاقات ختم ہوتے ہی ہر سکرین پر اندرونی کہانی چلنے لگی۔اندرونی کہانی یہ تھی کہ پرویز الٰہی نے مہنگائی کا شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ بلدیاتی انتخابات میں جانا مشکل ہو جائے گا‘آپ وزیر اعظم سے اس بارے میں بات کریں۔ ٭٭٭٭٭ ٹکرز میں کہا جا رہا تھا کہ گورنر کی اتحادیوں سے ملاقات ہوئی۔ اتحادی کیا‘سبھی ایک ہی جماعت کے لوگ ہیں۔تعارف کے لئے ’’شعوب و قبائل‘‘ کی شناخت الگ الگ بنا دی گئی ہے۔دراصل یہ سب ’’کوہ قاف پارٹی‘‘ ہیں۔پالیسی سے لے کر بیانات تک سبھی کوہ قاف سے آتے ہیں‘ سارے فیصلے وہیں سے چلائے جاتے ہیں۔ پرویز الٰہی کی جماعت کا تو نام ہی ’’قاف‘‘ لیگ ہے۔ہر چند وہ کہیں کہ یہ قاف قائد اعظم کا ہے لیکن کوہ قاف والے جانتے ہیں کہ ہمارا ہے۔اب تو کوہ قاف کا سکّہ اپوزیشن پر بھی چل گیا۔ سینٹ میں سٹیٹ بنک ’’حوالگی‘‘ (بشکریہ رضا ربانی‘انہوں نے اس بال کو سرنڈر کا نام دیا‘ میں نے اس کا اردو ترجمہ کر دیا، اپوزیشن کے تعاون سے منظور ہوئی اور طعنوں نے پھر اپوزیشن کی مت مار دی۔ حالانکہ اپوزیشن نے کیا کیا‘ جو ہوا‘ اس کی نشاندہی شاعر پہلے ہی کر چکا ہے کہ: وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے منظور خدا کے بالکل ہم وزن ’’منظور وھاں‘‘ہے۔یعنی وہی ہوتا ہے جو ’’منظور وہاں‘‘ ہوتا ہے اور یہ وہاں آخر ہے کہاں تو جواب ہے کہ بھئی‘وہیں کوہ قاف میں۔ ٭٭٭٭٭ پرویز الٰہی نے یہ جو کہا کہ سرور صاحب وزیر اعظم سے بات کریں تو یہ بات ذرا سی عجیب انہوں نے کر دی۔وزیر اعظم سے کیا بات کی جائے۔وہ تو کہتے ہیں کہ پاکستان دنیا کا سستا ترین ملک ہے۔وزیر اعظم سے تو جو بات کی جا سکتی ہے‘وہ یہ ہے کہ حضور‘اس سستے ترین کو تھوڑا سا ’’مہنگا‘‘ کر دیں تاکہ ہم بلدیاتی انتخابات میں عوام کا سامنا کر سکیں۔عوام یعنی ووٹر۔ ٭٭٭٭٭ ووٹروں کی بات وزیر اطلاعات (تاحال) فواد چودھری نے بھی کی۔اپوزیشن پر طعنوں کی تان توڑنے کے بعد فرمایا‘ہم اپنے ووٹروں کو جواب دہ ہیں۔شاید وہ انہی ووٹروں کا ذکر کر رہے تھے جن کا ذکر چند روز پہلے شیخ رشید نے یہ کہہ کر کیا تھا کہ ان کا ہاتھ ہمارے سر پر ہے اور اپوزیشن کی گردن پر ہو گا۔ ٭٭٭٭٭ گلگت بلتستان میں سحر انگیز نظارے والی جھیل کی تصویر شائع ہوئی ہے۔شمال کے پہاڑی علاقے‘ان علاقوں کی وادیاں اور موسموں کی آمد پر بدلتے منظر ہمیشہ سے دلکش رہے ہیں‘حکومت چاہتی ہے کہ سیاحت کو فروغ ملے۔بالکل سیاحت کو فروغ ملنا چاہیے‘ہم سب کہتے ہیں کہ سیاحت کو فروغ ملنا چاہیے۔ایسا بار بار کہنے سے کام چل سکتا ہے تو پاکستان کیلئے درد رکھنے والوں کو ٹولیاں بنا کر کہنا چاہیے کہ سیاحت کو فروغ ملنا چاہیے۔اصل بات یہ ہے کہ مری میں دو درجن انسان سیاحت کو فروغ دیتے جان سے گئے۔کئی ہفتے ہو گئے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی میٹنگ کا انتظام نہیں ہو پا رہا۔وزیر اعظم کی مصروفیات اس قدر ہیں کہ وقت گرفت میں نہیں آرہا۔ دلکش نظارے گل بکائولی کا باغ ہیں۔یہاں جو جائیگا جن اسے مار ڈالے گا۔اب اس جن کو جناب وزیر اعظم ماریں یا ان کے ساتھی۔ ٭٭٭٭٭ شرقپور کی یہ خبر اخبار کے اندرونی صفحے پر لگی ہے کہ 8سالہ بچی مافیہ کو اغوا کے بعد زیادتی کا نشانہ بنایا گیا‘پھر اسے قتل کر کے نعش درخت سے لٹکا دی گئی۔اسی روز ایک دوسرے اخبار نے مضافاتی خبروں والے گوشے میں نارووال کی یہ خبر چھاپی کہ 9سالہ بچے عمیر کو اغوا اور زیادتی کے بعد قتل کر کے لاش پانی کے گڑھے میں پھینک دی گئی۔باقی اخبارات کا بھی یہی حال ہے۔کوئی دن نہیں جاتا جب ایک‘دو یا بعض دن تو تین‘تین بچے اس طرح قتل نہ ہوتے ہوں اور کوئی دن ایسا نہیں ہوتا جب یہ خبر اندر کے صفحات پر نہ ڈال دی جاتی ہو۔چار سال پہلے قصور کی زینب کا بھی یہی کیس تھا‘تب یہ خبر صفحہ اوّل کی لیڈ تھی اور مہینہ بھر پہلے صفحات اسی خبر کی نذر ہوتے تھے۔ہزاروں گھنٹے کے ٹی وی پروگرام ہوئے‘ہزاروں صفحات کے کالم لکھے گئے پوری ریاست زلزلے کی زد میں تھی۔وہ بولنے والے اور وہ لکھنے والے کہاں ہیں؟یہیں ہیں لیکن آج کل وہ یوکرائن کے بحران‘مغربی یورپ کے اخلاقی بحران ‘افریقہ کی ماحولیات‘ صحرائے اعظم میں بند گوبھی کی کاشت اور حوروں کے ستر ملبوسات جیسے موضوعات پر لکھتے ہیں اور تازہ واردات یہ ہوئی ہے کہ ساڑھے تین سال کے بعد اچانک ان پر انکشاف ہوا ہے کہ عمران خاں کی ناکامی کی واحد وجہ پارلیمانی نظام ہے‘انہیں کامیاب کرانا ہے تو صدارتی نظام لائو۔ زینب اور اس کے بھائی ہر روز قتل ہو رہے ہیں اور ریاست میں زلزلہ تو دور کی بات‘کسی شجر کی ٹہنی کانپتی تک نہیں …وہ آخر شب کے ’’ہم فغاں‘‘کیا ہوئے؟۔