عمران خان پچیس جولائی کو نہیں تو پھر شاید کبھی اقتدار میں نہیں آسکیں گے، بظاہر انتخابی میدان جیتتے ہوئے نظر آنے والی پی ٹی آئی کے لئے نئے نئے چیلنجز سامنے آ رہے ہیں جنہیں سنجیدگی سے لینا پڑے گا، عمران خان خود عمران خان کیلئے ایک بڑا مسئلہ اور بڑا خطرہ ہیں ، عمران خان کو اس آئینے سے دور رہنا ہوگا جو اس کھلاڑی کو دو خانوں میں تقسیم کر دیتا ہے۔ ،عمران خان نے اپنے اوراپنے ممکنہ اقتدار کے لئے خود خطروں کے انبار لگا رکھے ہیں،کیا وہ میدان سیاست میں انقلاب لاتے ہیں یا اس انقلاب کیلئے رد انقلاب بنتے ہیں ،بارہ دن باقی ہیں اب کوئی چیز دور نہیں،دن تھوڑے ہیں اور کام زیادہ…! ایک بڑا خطرہ یہ ہے کہ پچیس جولائی کو چوہدری نثار کی جیپ چل سکتی ہے، نواز شریف کے ساتھ تین دہائیاں گزار دینے والے چوہدری نثار عمران خان کے ساتھ دو دن بھی نہیں چل سکتے، ان جیسے آدمی پر کیسے انحصار کیا جا سکتا ہے جس کا کہنا ہے جیپ صرف میری ہے، انہیں جیپ والے کسی دوسرے امیدوار کا علم ہی نہیں، ایک ایسا آدمی وزیر اعظم کیسے بن پائے گا،جس کی ننھی منی جسامت کی شیروانی ہی نہیں سل سکتی، کئی اوربا پردہ حقیقتوں کا پول بھی کھل سکتا ہے۔ عام انتخابات سے ٹھیک دو ہفتے پہلے اے این پی کے لیڈر اور انتخابی امیدوار ہارون بلور کو انیس دیگر افراد سمیت خود کش دھماکے میں ہلاک کر دیا جانا بھی ایک بڑا واقعہ ہے، جو کے پی کے میں تحریک انصاف کو نقصان پہنچا سکتا ہے، بیٹے کو اسی طرح مارا گیا جیسے ان کے والد بشیر بلورکو مارا گیا تھا، پچیس جولائی کو عام انتخاب کے حوالے سے شکوک بھی پچیس جولائی کو پولنگ مکمل ہونے تک موجود رہیں گے،آج جمعہ ہے،جو ن لیگ کے لئے پچھلے تمام جمعوں سے زیادہ بھاری ثابت ہو سکتا ہے، نواز شریف اور مریم نواز آج لینڈ کرنے والے ہیں، پلان سب کے سامنے ہے کہ دونوں کو ائیر پورٹ لاؤنج تک بھی نہ آنے دیا جائے، لینڈ کرنے والے جہاز کیساتھ ایک ہیلی کاپٹر یا جہاز کھڑا ہو سکتا، جوباپ بیٹی کو اس میں بٹھا کر دوسرے مقام تک لے جا سکتا ہے، آج ایک فیصلہ یہ بھی ہونا ہے کہ کون کون میدان میں آتا ہے ، دیکھیں گے سعد رفیق،دانیال عزیز،خواجہ آصف اور احسن اقبال جیسے لوگ نواز شریف کیلئے کیا کر پاتے ہیں؟ راول پنڈی میں نواز شریف صاحب کے داماد جی کو تماشہ لگاتے ہوئے سب نے نیوز چینلز اسکرینوں پر دیکھا، یہ ایسا ہی تھا جیسے آپ کو کوئی دوست کوئی ماٹھی سی فلم دکھانے زبردستی سینما ہاؤس میں لے جائے، الیکٹرانک میڈیا نے بہت سسپنس پیدا کرنے کی کوشش کی، محسوس ہو رہا تھا کہ ن لیگ کا اشتہار چل رہا ہے، چند درجن سر پھروں کے اکٹھ کو ریلی کا نام دیا جا رہا تھا، صفدر کو مریم نواز سے شادی کے بعد پہلا موقع ملا ہے کہ وہ میاں صاحب کی توجہ حاصل کر سکے، لیکن یہ ایسا ہی ہے جیسے مرحوم کامیڈین رنگیلا نے اچانک خود میں انتھونی کوئین کو دریافت کر لیا تھا اورہنچ بیک کی افسانوی دنیا میں جا پہنچا تھا، اس نے وکٹر ہیوگو کے ناول Hunchbeak of Notre-Dame کو کبڑا عاشق میں ڈھال دیا، اور جو کمائی کی تھی اس سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا، اس کے بعد بے چارے کو مفت علاج کیلئے اداکار محمد علی نے نواز شریف کے اسپتال داخل کرایا جہاں اس کا انتقال ہوا۔ کپٹن صفدر کا حال بھی رنگیلے جیسا ہی ہے، اس نے خود کو میاں نواز شریف کے قد کا لیڈر سمجھ کر گاؤں کے کئی دوسرے رنگیلے جمع کئے۔ ایک کھلی جیپ کا بندوبست کیا، پنڈی کے دو تین لیگی رہنماؤں سے چند گھنٹوں کی سیاسی پناہ مانگی اور اچانک سڑکوں پر آگیا، اس ڈرامے نے یہ بات ثابت کردی کہ آئی جی،ایس ایس پی سے لے کر ایس ایچ اوز تک تبادلوں سے پولیس کی نواز شریف اور ن لیگ سے وفاداری ختم نہیں کی جا سکتی، نواز شریف اب کسی ایک آدمی کا نہیں ایک کلچر کا نام ہے جو سالوں تک تبدیل نہیں ہوگا، بیورو کریسی بھی ایک عرصے تک شریفوں کے ساتھ شریف رہے گی، بلدیاتی حکومتوں کی ستائیس جولائی تک معطلی کا فیصلہ بھی ایک ناقص فیصلہ ہے، ستائیس جولائی تک ہی فوجی افسروں کو فرسٹ کلاس مجسٹریٹ کے اختیارات دینے کی بجائے یہ اختیارات عدلیہ کے افسروں کو دیدیے جاتے تو زیادہ بہتر ہوتا، ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کی پریس بریفنگ کا یہ نکتہ اہم ہے کہ فوج کو ایک خاص پوائنٹ سے آگے نہیں جانا چاہئے، فوج کوئی بے ضابطگی دیکھے گی تو اسے خود ٹھیک نہیں کرے گی،اسے الیکشن کمشن کو بھیجے گی ، اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ اگر سو ووٹ ڈالے جائیں تو بیلٹ بکس سے سو ووٹ ہی نکلنے چاہئیں۔ خوشاب میں ایک اندوہناک واقعہ سامنے آیا ہے۔ جہاں ایک عورت نے اپنے دو بیٹوں، دو بیٹیوں اور شوہر کو قتل کیا اور از خود پولیس کے سامنے پیش ہوگئی، یہ واقعہ ہمارے معاشرے کی ایک ایسی تصویر ہے جسے ہر پاکستانی کو دیکھنا بہت ضروری ہے، ہم کہاں کھڑے ہیں؟ یہ ایک بڑا سوال ہے، ہم سب کو اس سوال کا جواب تلاش کرنا ہوگا، میرے نزدیک ایسی خبریں نواز شریف، عمران خان اور آصف زرداری پر بحث سے زیادہ اہم ہیں، جب تک ایسے واقعات پر قومی بحث نہیں ہوگی، اور سماج کی سوچ ایک نہیں ہوگی، سیاست اور سیاستدان بے معنی چیزیں ہیں، معاشرے حکمران نہیں لوگ خود سدھارا کرتے ہیں۔ میں سترہ جولائی تک ٹورنٹو میں ہوں ،برادر ڈاکٹر اختر نعیم کی صاحبزادی ملیحہ نعیم کی شادی ہے،آپ لوگ بھی بچی کو دعاؤں میں یاد رکھیں، ٹورنٹو میں محترمہ عارفہ مظفر ، بدر منیر چوہدری اور دوسرے ڈھیر سارے دیرینہ دوستوں سے بھی ملاقاتیں ہونگی، دس جولائی کو پی آئی اے کی پرواز سے یہاں پہنچا تھا، پہلی بار چار سو سے زیادہ پاکستانیوں کے ساتھ سفر کا موقع ملا، کئی نئی چیزیں دیکھنے اور سمجھنے کو ملیں، اگلے کالم میں چودہ گھنٹوں کے اس دلچسپ سفر کی داستان آپ کی خدمت میں پیش کروں گا۔۔۔ فی امان اللہ