وزیراعظم نے سکروٹنی کا دائرہ کار وسیع کرتے ہوئے مختلف سرکاری عہدوں پر ریگولر، عارضی اور اضافی چارج کی آڑ میں من پسند افراد کو کمپنیوں کے بورڈز میں وفاقی کابینہ کی منظوری کے بغیر ڈائریکٹرز تعینات کرنیکی تفصیلات طلب کر لی ہیں۔ تحریک انصاف میرٹ اور شفافیت کے نعرہ کی بدولت اقتدار میں آئی ہے۔ بدقسمتی سے وزیراعظم عمران خان اپنی مدت کا نصف مکمل کرنے کو ہیں مگر ابھی تک بیوروکریسی کو کنٹرول کرنے میں کامیاب دکھائی نہیں دیتے ۔ افسر شاہی کی من مانیوں کا یہ عالم ہے کہ وفاقی کابینہ سے ایسے معاملات کی منظوری بھی لینے کی کوشش کی جاتی ہے جس کی ذمہ داری وزیراعظم سمیت کابینہ کا کوئی رکن قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔ اقلیتی کمشن کا معاملہ اس کی مثال ہے۔ حکومتی رٹ کے حوالے سے اس سے بڑھ کر مذاق بھلا اور کیا ہو سکتا ہے کہ وزیراعظم اور وزراء کے علم میں لائے بغیر من پسندافراد کو تعینات کر دیا جائے۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ رپورٹ طلب کرنے پر وزیراعظم کو غلط معلومات فراہم کی جا رہی ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو وزیراعظم کی طرف سے تمام ڈویژنز کے سیکرٹریوں کو فراہم کردہ معلومات کے درست ہونے کا اقرار نامہ اپنے دستخط کے ساتھ جمع کروانے کا نہ کہا جاتا۔ اب ایک بار پھر وزیراعظم نے خلاف ضابطہ تعیناتیوں سے متعلق گمراہ کن رپورٹ کا نوٹس لیا ہے۔ بہتر ہو گا وزیراعظم ماضی میں خلاف ضابطہ سرگرمیوں میں ملوث ذمہ داران کے خلاف بھرپور قانونی کارروائی کریں تاکہ مستقبل میں وزیراعظم کو دھوکہ دینے کی کوئی کوشش نہ کر سکے۔