وزیراعظم عمران خان نے میڈیا پالیسی سے متعلق اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے قوم کو آگاہ فرمایا ہے کہ پالیسیوں کے بنیادی ڈھانچے میں اصلاحات ہمیشہ تکلیف دہ ہوتی ہیں مگر ان اصلاحات کے بعد خوشحالی کا دور شروع ہوتا ہے۔ وزیراعظم عوام کو حکومتی پالیسیوں کے باعث درپیش مشکلات کے خوشگوار نتائج کی امید دلا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا کے متعلق حکومتی پالیسیوں کے خلاف من گھڑت پروپیگنڈا کیا جارہا ہے اور حکومت میڈیا سے روابط مزید مضبوط بنا کر اس مذموم ایجنڈے کو ناکام بنائے گی۔ وزیراعظم نے اپنے اصلاحاتی ایجنڈے سے عوام کوباخبر رکھنے کے لیے وزارت اطلاعات کو مزید متحرک ہونے کی ہدایت کی ہے۔ وزیراعظم کی جانب سے میڈیا پالیسی پر اپنے رفقاء کے ساتھ مشاورت سے حکومت ان خامیوں اور کوتاہیوں پر قابو پانے کا راستہ تلاش کرسکتی ہے جو اس کی مثبت کارکردگی کو عوام میں پذیرائی دلانے سے روک رہی ہیں۔ بے شک پاکستان کے حالات تشویشناک ہیں کہ سابق حکومتیں معاشی، سماجی، خارجہ اور ثقافتی شعبوں میں سے کسی میں بھی خاطر خواہ بہتری نہیں لا سکیں۔ کون سا محکمہ ہے جہاں بدانتظامی، سفارش، رشوت، اقرباپروری اور وسائل کی لوٹ کھسوٹ کی داستانیں نہیں۔ جناب عمران خان کی بائیس سالہ سیاسی جدوجہد کی نمایاں بات یہی ہے کہ انہوں نے ان خرابیوں سے براہ راست متاثر ہونے والے عام آدمی کو شعور دیا کہ حکمران اشرافیہ اس کا استحصال کر رہی ہے۔ عمران خان نے تبدیلی کا جو نعرہ دیا وہ حکومت کی تبدیلی تک محدود نہیں عوام نے اسے استحصالی نظام کی جگہ بہبودی نظام لانے کی آرزو کے طور پر دیکھا۔ تحریک انصاف کے منشور میں عہد جدید کے گلوبل مسائل اور ان کے پاکستان پر مرتب ہونے والے اثرات کا گویا ایک تجزیہ دکھائی دیتا ہے۔ اقتدار میں عوام، بلاامتیاز انصاف کی فراہمی اور بدعنوانی کو جڑ سے اکھاڑنا پاکستان کی بقا کے لیے ضروری ہے۔ گزشتہ اور حالیہ عام انتخابات میں مسلم لیگ ن انتخابی مہم میں اپنے تجربہ کار ہونے کو بطور خوبی عوام کے سامنے پیش کرتی رہی۔ دوسری بڑی سیاسی جماعت پیپلزپارٹی کی قیادت اب بھی بار بار یہ کہہ رہی ہے کہ اس کے پاس ملک چلانے کے لیے زیادہ قابل اور باصلاحیت ٹیم موجود ہے۔ ان حالات میں عوام حکومت سے اگر معاملات میں بہتری اور سہولت کی امید لگاتے ہیں تو یہ قدرتی امر ہوگا۔ عوامی سطح پر تحریک انصاف کے لیے حمایت میں مسلسل اضافہ ہونے کی ایک وجہ یہ تھی کہ تحریک انصاف کی قیادت ملک کے مسائل کو حل کرنے کے منصوبوں پر بات کرتی رہی ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنمائوں کی قومی اسمبلی کے فلور پر تقاریر، ٹاک شوز میں گفتگو اور بیانات سے معلوم ہوتا تھا کہ پاکستان کے پاس ایسے لوگ موجود ہیں جنہیں موقع دیا گیا تو معاشی مسائل حل ہو سکتے ہیں، لاقانونیت، سماجی عدم مساوات، تعلیم و صحت کے شعبوں کی حالت زار، جنگلات کی کمی، زراعت کو لاحق مسائل اور تفریحی و ثقافتی سرگرمیوں سے متعلق تحریک انصاف سے عمدہ کارکردگی دکھانے کی امید ایک پورا پس منظر رکھتی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے ان توقعات کا ادراک رکھتے ہوئے پہلے سو دن کے اقتدار کے لیے کئی اہداف مقرر کئے۔ مختلف شعبوں میں اصلاحات اور بہتری کے لیے درجنوں ٹاسک فورسز قائم کی گئیں۔ بتایا گیا کہ یہ ٹاسک فورسز بہترین اور تجربہ کار ماہرین کے تعاون سے مسائل، وسائل اور ان کے حل کی تدابیر ڈھونڈیں گی۔ یقینا ایسی کمیٹیاں اور ٹاسک فورسز وزیراعظم کی طرف سے تفویض کردہ کام کی انجام دہی میں مصروف ہوں گی مگر اس موقع پر عوام میں غیر یقینی پن اور مشکلات میں اضافے کا احساس مسلسل بڑھنے لگا ہے۔ اشیاء کے نرخوں کا معاملہ ہو، منتخب نمائندوں کے عوام سے رابطے کا ذکر ہویا انتظامی امور کی بات ہو کہیں پر بھی اس مثالی شکل کی جھلک دکھائی نہیں دے رہی جس نے عوام کے دل تسخیر کر رکھے تھے۔ وزیراعظم کا یہ کہنا بجا ہے کہ کہنہ اور پیچیدہ مسائل کو حل کرنے کے لیے جو سٹرکچرل ریفارمز لائی جاتی ہیں وہ عوام کے لیے ہمیشہ تکلیف دہ ہوتی ہیں۔ پاکستان کے عوام اس تکلیف سے آشنا نہیں جس کی بات وزیراعظم کر رہے ہیں تاہم مسئلہ یہ نہیں کہ عوام کے دکھ اس لیے بڑھ رہے ہیں کہ پالیسیوں کو درست کیا جارہا ہے مسئلہ یہ ہے کہ جو کچھ کیا جارہا ہے اور حکومت جو فیصلے کر رہی ہے وہ فیصلے کہیں دکھائی نہیں دے رہے۔ ساری حکومتی مشینری سیاسی مخالفین کے بیانات کا جواب دینے پر مامور ہے۔ میڈیا پالیسی کا حکومت کو خود اندازہ ہونا چاہیے کہ اس پر تنقید کیوں بڑھنے لگی ہے۔ مسئلہ اس طرح سے بھی حل نہیں ہوتا کہ حکومتی کارکردگی میڈیا کے سامنے بہتر انداز میں پیش کرنے والے لوگ مقرر کردیئے جائیں۔ یہ لوگ بڑھتی ہوئی ناامیدی کو کس طرح دور کرسکیں گے جب حکومتی کارکردگی پر عوام عدم اطمینان محسوس کر رہے ہوں۔ عمران خان ملک لوٹنے والوں کو سزا دلانا چاہتے ہیں اور ریاست کی فلاحی شکل کو ابھارنا چاہتے ہیں تو لوگ ان کے ساتھ ہیں۔ عمران خان نئے ڈیم بنانا چاہتے ہیں تو عوام ان کے کسی مخالف کے جھانسے میں آ کر پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ نصاب تعلیم اور صحت کی سہولتوں کے ضمن وہ انقلابی اقدامات کے خواہشمند ہیں تو مخالفین کا پروپیگنڈہ اس وقت غیر موثر ثابت ہو جائے گا جب عوام کی زندگی ان اقدامات سے مستفید اور سہل ہونے لگے گی۔ محترم وزیراعظم کو یہ بات سمجھنا چاہیے کہ عام آدمی اب بھی خود کو فیصلہ سازی میں شریک نہیں سمجھ رہا، اس کا احساس محرومی دور کرنے کے لیے برسوں کا انتظار نہیں کیا جانا چاہیے۔