ہمارے سیاستدان خصوصاً اعلیٰ عہدوں تک پہنچ جانے والے سیاستدان اپنے اردگرد کے ماحول خصوصاً فوج اور اس ادارے کے طریقہ کار کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے‘ بے نظیر بھٹو جب دوسری مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہوئیں تو پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل فاروق لغاری ان کی طرف سے عہدہ صدارت کے لئے امیدوار تھے۔ان کے مقابلے میں چیئرمین سینٹ وسیم سجاد کو اتارا گیا۔ فاروق لغاری صدر منتخب ہو گئے‘ نیا دور حکمرانی شروع ہوئے چند ہی روز گزرے ہونگے ایک دن وسیم سجاد صاحب سے ملاقات ہو گئی‘ وہ اب بھی چیئرمین سینٹ تھے۔ کہنے لگے فاروق لغاری کا صدر بننا پاکستانی سیاست کے لئے اچھا شگون نہیں ہے۔ قومی سیاست غیر متوازن ہو جائے گی کرپشن کا دور دورہ ہو گا۔ جب صدر اپنا ہو گا۔ وفادار آدمی فوج کا سربراہ‘ دولت کی ریل پیل‘ زرداری نے جس طرح ممبران پارلیمنٹ کو خرید کر فاروق لغاری کو صدر منتخب کروا لیا وہی زرداری اپنے صدر اور اپنے فوجی سربراہ کی موجودگی میں کیا کچھ نہیں کر گزرے گا؟ اگلے دس برس تو وہ آسانی سے اپنی حکمرانی برقرار رکھ سکتے ہیں۔اس عرصے میں پوری سینٹ بھی انہی کے ممبران پر مشتمل ہو گی تو ہم کیا کریں گے؟ عرض کیا‘ آپ بہت دور کی سوچ رہے ہیں فوج کے سربراہ کی وفاداری کا مفروضہ ایک طرف‘ آپ یقین کیجیے عنقریب فاروق لغاری اور حکمران جوڑے کے درمیان شدید اختلافات ابھر آئیں گے اور یہی فاروق لغاری جو اب صدر پاکستان بن چکے ہیں بے نظیر کی حکومت کو چلتا کریں گے۔ یہ سب ہماری نظروں کے سامنے ہو گا‘ بس تھوڑا انتظار ۔اس کے بعد جو کچھ ہوا ‘ سب کے سامنے ہے‘ فاروق لغاری ہی تھے جو آصف زرداری کی جارحانہ سیاست اور مداخلت کو برداشت نہ کر سکے‘ مجبور ہو کر انہوں نے بیگم عابدہ حسین کی وساطت سے اپنے دشمن نوازشریف کے ساتھ ہاتھ ملایا اور بے نظیر کی حکومت بڑے عبرتناک انجام سے دوچار ہوئی۔فاروق لغاری نبھاہ نہ سکا‘ آپ کس کی وفا ڈھونڈتے ہیں؟ایوب خاں نے یحییٰ خان کو چن کے لگایا تھا ‘ شراب و شباب میں مست لیکن وہ اقتدار کے لئے چوکس و چوبند رہا۔ یہ الگ بات کہ پاکستان کو دولخت کرنے میں حصہ دار بن گیا۔ اس کے بعد زمانہ ساز‘ ہوشیار آسمانوں میں تھگلی لگانے والا بھٹو بیس سال تک پاکستان پر حکمرانی کے خواب سجائے فوج میں سے بڑی باریک بینی سے وفادار تلاش کر لایا تھا۔ لیفٹیننٹ جنرل محمد ضیاء الحق منکسر مزاج مشرقی‘ پنجاب سے آئے مہاجر‘ بھٹو کو معصوم اور الگ تھلگ نظر آئے‘ جس کا فوج میں کوئی گروپ نہیں تھا۔پھر کیا ہوا بھٹو کے ساتھ ۔وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ فوجی سربراہوں کی تقرریاں کی ہیں‘انہی کے ایک شہکار کا نام پرویز مشرف تھا‘ وہ بھی ہجرت کر کے آنے والے خاندان کا چشم و چراغ‘ یہاں پڑھ لکھ کر جوان ہوا‘ اردو بولنے والا‘ وہ بھی الگ تھلگ‘ نہ کوئی گروہ نہ قبیلہ نہ فوج میں کسی گروپ کا حصہ۔ اسے فوج کا سربراہ بنا کر خوش تھا کہ ایک وفادار ڈھونڈھ لیا۔اب ہر طرف سے خیریت ہے‘ سیاسی حریفوں کو کچل دوں گا‘ کھل کے دولت سمیٹوں گا اور بیس سال بلا شرکت غیرے اپنی حکومت ہو گی۔گلیاں ہوجان سنجیاں تے وچ مرزا یار پھرے۔کوئی پوچھ گچھ نہ مدمقابل‘ اسی وفادار پرویز مشرف کے ہاتھوں بھٹو کا سا انجام قریب سے گزر گیا‘ جان بچی سو لاکھوں پائے۔ جو گزر گیا وہ سب جانتے ہیں‘ جو گزر رہی ہے وہ سب پر بھاری ہے‘ نیندیں حرام ہیں سب کی۔ وجوہات الگ الگ ہیں۔ نزلہ بر عضو ضعیف۔سب سے خطرناک حملہ مسلم لیگ(ق) پر ہوا مشرف سے کچھ نہ کچھ بچ بچا کے آ گئی تھی لیکن زرداری کی جپھی زہر قاتل ہوئی‘ زرداری بھی کیا سبز قدم ہیں۔جہاں قدم رکھا‘ درو دیوار پہ سبزہ اگ آیا‘ بقول غالب ؔ اگ رہا ہے درودیوارسے سبزہ غالبؔ ہم بیاباں میں ہیں اور گھر میں بہار آئی ہے ہماری نئی نسل سبز قدم کو مبارک خیال کرتی ہے‘ بہت سال پہلے جب فلوریڈا کے شہر میامی گیا‘ اپنے بھانجے باری کے پاس تو وہ بہت خوش تھا‘ اپنی امی آپا صفیہ سمیت سب بچوں بڑوں کو سامنے بٹھا کے کہتا ہے‘ ماموں جی ماموں جی آپ بڑے سبز قدم ہیں ‘ حیرت سے اسے دیکھنے لگا کہ یہ گالی نما‘ اسے کیوں سوجھی؟ توقف کیا۔ پھر بولا میرے بہت سے پیسے پھنسے ہوئیتھے کل ہی خلاف توقع مجھے مل گئے‘ پی آئی اے کے ساتھ کام اٹکا ہوا تھا‘ آج وہ بھی ہو گیا۔ سکول کی طرف سے بچوں کے لئے بڑی اچھی خبر آئی ہے‘ آپ واقعی ہمارے لئے سبز قدم ہیں۔ میں نے اسے جھڑک دیا اور کہا معلوم ہے کہ سبز قدم ہوتا کیا ہے؟ اب وہ میرے لہجے سے تھوڑا گھبرایا اور بولا مبارک ثابت ہوئے۔ بہت مبارک۔ اسی طرح کا کچھ سبز قدم ثابت ہوئی نئی تقرری‘ وہ نئی تقرری واقعی کسی کے لئے منحوس تھی اور مبارک بھی لیکن وہ بڑی بڑی اور دورس تبدیلیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوئی اور ہو رہی ہے‘ جو تھا نہیں ہے‘ جو ہے نہ ہو گا۔اب زیادہ دن نہیں ہیں صرف چار مہینے رہ گئے ہیں۔ راز تو سارے کھل گئے ہیں پھر زبان زد عام ہونگے‘ جس تقرری کا اوپر ذکر کیا ہے یہ عمران کے شکوک کو یقین میں بدلنے کا باعث ہوئی۔ افغانستان میں انقلاب آ چکا تھا‘ ہمارے بہت سے معاملات‘ مسائل مفاد اور خدشات اس کے ساتھ وابستہ تھے۔ طالبان کے اقتدار کے بعد امریکی انخلا اور خانہ جنگی کے امکانات اور پاکستان کی طرف بڑی تعداد میں مہاجرین کی نقل مکانی کے امکانات کے علاوہ نئی حکومت کے ساتھ تعلقات اور ان کی مشکلات کے ادراک کے لئے ’’چین آف کمانڈ‘‘ کا تسلسل مطلوب تھا۔ وزیر اعظم نے اسی خیال سے جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کی تھی‘ اب وہ کم از کم مارچ یا اپریل تک آئی ایس آئی کے سربراہ کو اپنے عہدے پر برقرار رکھنا چاہتے تھے۔اگرچہ آئی ایس آئی کی تقرری برقرار رکھنے کی وجہ افغانستان کے حالات ہی تھے جیسا کہ قمر جاوید باجوہ کی توسیع کے وقت تھا لیکن اس عرصہ میں آئی بی کی طرف سے بعض پراسرار سرگرمیوں کی اطلاعات موصول ہونے لگی۔ عمران خان بجٹ کے بعد خود بھی نئے انتخابات میں جانے کا ارادہ رکھتے تھے‘ نئی تقرری اور مخصوص شخص کے لئے اصرار بڑھتا گیا‘ پھر یہ ٹھوس عذر پیش ہوا کہ آئی ایس آئی کے سربراہ کو اگلے رینک میں ترقی کے لئے کور کمانڈ کرنا ضروری ہے ورنہ وہ ’’فور سٹار‘‘ جنرل بننے کا امکان گنوا بیٹھیں گے‘ جب عمران خاں نے فی الوقت انہیں جانے کی اجازت دینے سے انکار کیا تب ایک ترمیم کام میں آئی۔ اگلے رینک میں ترقی کے لئے لیفٹیننٹ جنرل کو کم از کم چھ ماہ تک کور کی کمانڈ کرنا ضروری تھا۔چھ ماہ کی مدت کو بڑی خاموشی سے ایک سال کی مدت میں بدل دیا گیا‘ اب کوئی چارہ کار باقی نہیں تھا۔ نہ آئی ایس آئی سربراہ کے پاس نہ ہی وزیر اعظم کے پاس ۔ وزیراعظم وہ سمجھ چکے تھے کہ ہوائوں کا رخ کیا ہے لیکن انہوں نے اپنی خوش گمانی کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا تھا۔یہ خوش گمانی اس انجام کو پہنچی جو سب کے سامنے ہے۔