وفاقی حکومت کی ہدایت پر قرضہ کمیشن نے 24 ہزار ارب روپے کے ملکی اور غیر ملکی قرضوں کے استعمال میں بے ضابطگیوں اور خورد برد سے متعلق تحقیقات مکمل کرکے رپورٹ وزیراعظم کو پیش کر دی ہے ۔ عالمی معیار کے مطابق کسی بھی ملک پر قرضوں کا بوجھ اس کے جی ڈی پی کے 67 فیصد سے زیادہ نہیں ہونا چاہئے جبکہ پاکستان میں یہ شرح 84 فیصد سے تجاوز کر چکی ہے ۔ ماہرین اقتصادیات کے مطابق پاکستان غیر ملکی قرضوں کے بوجھ میں دبنے کی وجہ سیاسی اشرافیہ اور بیوروکریسی کی بے لگام کرپشن ہے۔سیاسی اشرافیہ اور افسر شاہی کی ملی بھگت سے لوٹ مار کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ سابق حکمرانوں کے دس سالہ دور اقتدار میں 24ہزار ارب روپے قرضہ لیا گیا جس میں سے ایک ہزار ارب روپے کے مبینہ غبن کی نشاندہی کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق لوٹ مار میں معاونت کیلئے ایل ڈی اے سمیت اہم اداروں میں اپنے چہیتوں کو اہم عہدوں پر تعینات کیا گیا جو ترقیاتی منصوبوں کی لاگت میں کئی گنا اضافہ کرتے رہے۔ یہ افسر شاہی کی بدعنوانیوں کی انتہا ہی تھی کہ بی آر ٹی منصوبہ کی لاگت 30 ارب سے 75 ارب، جبکہ نندی پور پاور پلانٹ کا تخمینہ 84 ارب سے بڑھا کر 500 ارب کر دیا گیا۔ اب جبکہ کمیشن نے اپنی رپورٹ وزیراعظم کو پیش کر دی ہے تو امید کی جا سکتی ہے کہ حکومت نہ صرف لوٹی دولت قومی خزانے میں واپس لائے گی بلکہ لوٹ مار میں ملوث سیاسی اشرافیہ کے ساتھ بیوروکریسی کو بھی انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔