میں داتا گنج بخش کے مزار کے برابر والی گلی میں لنگر تقسیم کر رہا ہوں۔ میرے سامنے چنے کے پلائو کی تین دیگیں دھری ہیں۔ آگے بڑھے ہوئے ہاتھ ہیں۔ جھولیاں اور شاپر ہیں اور میں انہیں بھرتا جا رہا ہوں۔ یہ 25دسمبر کے بڑے دن کی ایک دھندلی سویر ہے۔ چاول تقسیم کرتے میرا ہاتھ دکھنے لگتا ہے لیکن میں رک نہیں سکتا۔ سوال کرتی‘ بھیک مانگتی‘ غربت زدہ آنکھیں ہیں جو مجھے اس آس میں تک رہی ہیں کہ میں ایک جعلی سخی بابا ان کی جھولی بھر دوں‘ ان کی بھوک کا مداوا کر دوں۔ یہ دو عمل‘ ایک بھیک مانگنے کا اور ایک خیرات کرنے کا ہمیشہ مجھے تذبذب میں ڈالتے ہیں کہ ان میں سے احسن عمل کونسا ہے۔ بھیک مانگنے والا مجبور ہوتا ہے‘ اگر وہ ایک عادی بھیک منگا ہو تو بھی اپنی عادت سے مجبور ہے۔ اس کے نزدیک گناہ اور ثواب کی کوئی حیثیت نہیں۔ کوئی اخلاقی پابندی نہیں۔ میں نے ایک نزدیکی دوست سے پوچھا کہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ شخص یا یہ عورت قطعی طور پر لاچار اور مجبور نہیں ہیں بلکہ عام مڈل کلاس شخص سے بہتر زندگی گزارتے ہیں۔ ایک فقیر موٹر سائیکل پر آتا ہے اور ایک عورت کا بینک میں اکائونٹ ہے تو پھر تم ان کو ہمیشہ کیوں بھیک دیتے ہو تو اس نے کہا تھا کہ ایک انسان کے لئے سب سے بڑی ذلت ہاتھ پھیلانا ہے۔ اگر کسی نے ہاتھ پھیلا دیا تو میں اسے بھیک نہ دے کر مزید ذلیل نہیں کر سکتا۔ میں پہلے بھی کئی بار اظہار کر چکا ہوں کہ بھیک مانگنا برا ہے لیکن اپنے لئے نہیں کسی اور کی بہبود کے لئے کسی فلاحی ادارے کے لئے‘ انسانیت کی خدمت کرنے کے لئے بھیک مانگنے والے اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ لوگ ہوتے ہیں۔ ولائت کے درجے کی قربت میں ہوتے ہیں اور اس کی سب سے بڑی مثال بابا ایدھی ہے۔ میں نے بھی ایک دو ڈراموں میں فقیر کا روپ دھار کر نہ صرف لاہور کے بازاروں میں بلکہ داتا صاحب کے احاطے میں بھیک مانگی ہے اور میں جانتا ہوں کہ جب آپ کے کشکول میں پہلا سکہ گرتا ہے تو اس کی کھنک سے آپ کی عزت نفس ریزہ ریزہ ہو جاتی ہے۔ ویسے میرا کشکول لمحوں میں بھر گیا تھا یعنی اگر میں فقیر ہوتا تو مجھے وہ مالی دشواریاں پیش نہ آتیں جو میں صرف ادب اور میڈیا پر انحصار کرنے کے فیصلے کے بعد مسلسل پیش آئی تھیں۔ آج کا داتا دربار مجھ سے پہچانا نہ جاتا تھا۔ اس کی وسعت میں اضافہ ہو چکا تھا۔ بہت مدت پہلے نگار سینما اور پائلٹ ہوٹل کے قریب ایک چھوٹی سی گلی کے آخر میں چند سیڑھیاں اور گنبد نظر آیا کرتا تھا۔ اس گلی میں جہاں چند ایک پھلیرے پھول اور ہار سجائے بیٹھتے تھے وہاں داتا کی اس گلی میں ایک عجیب و غریب دکان تھی جہاں گرامو فون ریکارڈ یعنی ’’توے‘‘ فروخت ہوتے تھے۔ کہا جاتا تھا کہ یہ برصغیر کی واحد دکان ہے جہاں سے ہر نوعیت کی موسیقی کے قدیم ترین اور نایاب ریکارڈ مل جاتے تھے گویا یہ برصغیر کی موسیقی کی ایک انسائیکلو پیڈیا لائبریری تھی۔ ان دنوں سرحد پار سے بھی لوگ کسی گلوکار کی گمشدہ آواز کی تلاش میں یہاں پہنچ جاتے اور دکاندار انہیں اوریجنل ریکارڈ فروخت نہ کرتا بلکہ اس کی کاپی کر کے دیتا۔ جانے وہ دکاندار اور اس کی شاندار کولیکشن کہاں گئی۔ داتا صاحب کی ایک قدیم یاد اور بھی ہے کہ مال روڈ پر واقع فیروز سنز والی خوبصورت بلڈنگ کے مالک چودھری غلام رسول تارڑ جن کا شمار ان وقتوں کے رئوسا میں ہوتا تھا کہ مہاراجہ کشمیر نے پورے کشمیر میں جنگلی نباتاتی بوٹیوں‘ پھولوں اور پودوں کا ٹھیکہ عنائت کر دیا تھا۔ یہ جڑی بوٹیاں یورپ کی دوا ساز کمپنیاں نہائت مہنگے داموں خریدتی تھیں۔ فیروز سنز بلڈنگ کے علاوہ برابر میں واقع وکٹوریا پارک میں بھی ان کی وسیع جائیداد تھی۔ جدید مصوری کے بانیوں میں سے ایک مصور معین نجمی اور خوش پوش اداکار اسلم پرویز ان کی اولاد میں سے ہیں۔تارڑ صاحب ‘ حضرت داتا گنج بخش سے بے حد عقیدت رکھتے تھے چنانچہ انہوں نے مزار کے احاطے میں ایک مسجد تعمیر کروائی یا شائد نوتعمیر کروائی اور وصیت کے مطابق وہیں دفن کئے گئے۔ مجھے نہیں معلوم کہ آج ان کی قبر وہاں موجود ہے یا نئے کامپلیکس کی وسعت کا شکار ہو گئی ہے۔ آخر میں صبح سویرے سردی سے بچائو کی خاطر ایک دبیز جیکٹ اور اونی ٹوپی اوڑھے داتا صاحب کے مزار کے باہر کیوں لوگوں میں لنگر تقسیم کر رہا تھا۔ دراصل حسب عادت میں نے پارک کے کچھ دوستوں کو مائل کر لیا تھا کہ اس اتوار 25دسمبر کو ہم داتا گنج بخش کے مزار پر حاضری دیں گے کہ ایک عرصہ ہو چکا اس کو گنج بخش ہر دو عالم مظہر نور خدا کی زیارت کئے ہوئے۔ میرے ہمراہ فرید احمد۔ صدیق شہزاد‘ خواجہ تنویر ‘ ملک سرفراز اور گیسو دراز کے علاوہ ہمارے سرائیکی دوست سعید صاحب بھی تھے۔ انہوں نے کبھی داتا صاحب کے ہاں ایک التجا کی تھی جو ان کے بقول پوری ہو گئی اور انہوں نے اس کی قبولیت کے شکرانے کے طور پر تین دیگیں لنگر تقسیم کرنے کا وعدہ کیا تھا چنانچہ یہ دیگیں سعید صاحب کی خرید کردہ تھیں اور میں صرف انہیں بانٹنے پر مامور تھا۔ لاہوریوں کے لئے خاص طور پر داتا صاحب کے لئے عقیدت اکثر شرک کی حدوں کو چھوتی ہے اور آپ نے اس مائی کا قصہ تو سنا ہو گا جو ایک متبرک اور مقدس مقام پر بیٹھی روتی چلی جا رہی تھی کہ ہائے ہائے آج داتا صاحب کا عرس ہے اور میں کہاں بیٹھی ہوں اور یہ عقیدت اتنی بے وجہ بھی نہیں کہ لاہور آج بھی تاریکیوں میں ڈوبا ہوتا اگر غزنی کے محلہ ہجویر سے یہ کامل ولی اسلام کی روشنی لے کر نہ آتا ہر صوفی کی مانند داتا صاحب کا مرقد بھی سراسر سیکولر تھا۔ وہاں سب مذاہب کے لوگ کیا ہندو کیا سکھ حاضری دیتے تھے۔ حضرت نظام الدین اولیا بابا فرید اور معین الدین چشتی کی جانب نظر کیجیے بلکہ کئی بار شبہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی نسبت غیر مسلم ان سے زیادہ عقیدت رکھتے ہیں۔ آپ نے کٹڑ بلکہ متعصب ہندوئوں کو بھی ان مزاروں پر پھولوں کی ٹوکریاں سر پر اٹھائے ننگے پائوں آتے دیکھا ہو گا اور ان میں امیتابھ بچن بھی شامل ہے‘ اپنی بہو ایشوریا رائے کے ساتھ۔ بلکہ جب میں پہلی بار خواجہ نظام کے مزار پر حاضری دینے گیا تو میرا ہندو دوست ونود سر پر رومال باندھے فوراً سجدہ ریز ہو گیا اور میں کھڑا رہا کہ میرے اندر ایسی عقیدت ہرگز نہیں تھی۔ بلکہ میں امیر خسرو کے مزار کی جانب کھنچتا چلا گیا کہ: گوری سوئے سیج پر منہ پہ ڈالے کھیس چل خسرو گھر اپنے سانجھ پئی چودیس میرے ابا جی اگرچہ مزار پرستی پر کچھ یقین نہ رکھتے تھے لیکن انہوں نے مجھے داتا صاحب کے حوالے سے ایک قصہ سنایا تھا۔ تقسیم سے پیشتر پنجاب سول سیکرٹریٹ میں ایک سکھ سول سروس کا ایک اعلیٰ افسر تعینات تھا اور بے اولاد تھا۔ اس نے اپنے تمام مذہبی مقامات پر حاضری دی۔ چلے کاٹے لیکن اس کی آرزو پوری نہ ہوئی۔ اس کے ایک مسلمان ماتحت نے ڈرتے ڈرتے عرض کیا کہ سردار صاحب ہمارے داتا صاحب کے ہاں بھی عرض ڈال دو شائد آپ کی جھولی بھر جائے۔ سردار کو کیا اعتراض ہو سکتا تھا ۔داتا صاحب کے ہاں حاضری دی اور منت مانی کہ اگر میرے دل کی مراد پوری کر دے تو میں زندگی بھر ہر روز اپنے دفتر سے لے کر لاہور سٹیشن تک ننگے پائوں خلق خدا کو پانی پلائوں گا۔ اس کی مراد پوری ہو گئی۔ خدا نے اسے اولاد سے نواز دیا۔ وہ سردار کڑی گرمیوں میں دفتر سے فارغ ہو کر باہر آتا۔ پگڑی اتار کر گلے میں ڈالتا جوتے اتار کر اپنی کار کے ڈرائیور کے سپرد کرتا اوراس دوران اس کا ایک ماتحت ایک ریڑھی پر برف والے پانی کے گھڑے رکھ کر یہ ریڑھی اپنے افسر کے حوالے کر دیا۔ سردار ریڑھی کو دھکیلتا ننگے پائوں میکلوڈ روڈکے راستے سٹیشن کی جانب چلتا جاتا اور راستے میں راہگیروں اور مسافروں کو پانی پلاتا جاتا۔ سٹیشن پر اس کی کار منتظر ہوتی۔ وہ خالی ریڑھی اپنے اسی ماتحت کے سپرد کرتا۔ جوتے پہن کر پگڑی باندھتا اور گھر چلا جاتا۔ میرے ابا جی کا کہنا تھا کہ انہوں نے متعدد بار اس سردار کو سول سیکرٹریٹ سے نکل کر جوتے اتارتے اور پھر ننگے پائوں میکلوڈ روڈ پر چلتے لوگوں کو پانی پلاتے دیکھا تھا۔(جاری ہے) یہ سب واقعات جو اب تاریخ ہو چکے میرے ذہن میں گردش کرتے رہے۔ جب میں لوگوں میں لنگر تقسیم کر رہا تھا اس دھند بھری سویر میں یہاں تک کہ تینوں دیگیں خالی ہو گئیں لیکن اس سے پیشتر میں نے سعید صاحب سے کہا کہ اب آپ آئیے اور میں جھولی ہاتھوں کی صورت پھیلاتا ہوں۔ مجھے بھی تو داتا صاحب کا لنگر کھانے کی تمنا ہے۔ انہوں نے پہلے تو انکار کیا پھر میرے اصرار پر چاول مجھے عنائت کئے جو بہت گرم تھے اور صبح سویرے انہیں کھاتے ہوئے میں ایک عجیب لطف میں مبتلا ہوا۔ کیا یہ درست ہے کہ جس شہر میں بدی جڑیں پکڑ جائے اور لوگ راہ راست سے بھٹک جائیں اس نسبت سے اس شہر کے ولی اللہ کا مزار عالیشان اور وسیع ہوتا جاتا ہے۔؟(جاری)