صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان، نے پیش آمدہ محرام الحرام، جس کا آغاز20 اگست کو متوقع ہے ، کے لیے ملک گیر مشاورت کا اہتمام ، ویڈیو کانفرنس کے ذریعے گذشتہ روز ایوانِ صدر اسلام آباد میں کیا ، جس کے لیے صوبہ پنجاب کے علماء ، مذہبی شخصیات و سرکاری عمائدین گورنر ہائوس لاہور سے بذریعہ ویڈیو لنک شامل ہوئے، اسی طرح دیگر صوبوں ،بشمول آزاد کشمیر و گلگت بلتستان میں بھی یہ اہتمام عمل میں آیا ۔"کوویڈ19ـ" کے سبب ایسی ہی اعلیٰ سطحی مشاورت کے نتیجہ میں ، ماہ ِ رمضان المبارک کے لیے تشکیل شدہ ایس او پیز کا کامیاب تجربہ ،20 جون کو عید الضحیٰ اور قربانی کی بابت مشاورتی اجلاس… اور اب ماہ محرم الحرام کی آمد اور قواعد و ضوابط کی تشکیل و تربیت…بیساختہ اقبال یاد آگئے:۔ غریب و سادہ و رنگین ہے ’’داستانِ حرم‘‘ نہایت جسکی حسینؑ، ابتداء ہے اسمعیلؑ چند دہائیں قبل، ہمارے بعض اکابرین، ایسی حکومتی سرگرمیوں اور کوششوںپہ قدرے طنز اور تجسس سے یہ کہا کرتے تھے کہ بھائی! امن کمیٹیاں تو وہاں بنتی اور منعقد ہوتی ہیں ، جہاں امن کو خطرہ ہو، اور امن کو خطرہ وہاں ہوتا ہے جہاں کوئی نزاع ہو، محرم کے مہینے میں ایسا کونسا متنازعہ مسئلہ ہے، جو امن کے لیے خطرہ بن سکے ، اس لیے کہ اگر محرم" امام حسینؑ" کی قربانیوں کا سر نامہ ہے ، تو کون مسلمان ہے "حسینؑ" جس کے ایمان کا حصہ نہ ہو، کون کلمہ گو ہے ، نواسۂ رسول کا عشق اور اس کی محبت ان کے وجود میں خون کی طرح نہ دوڑتی ہو ، کونسی آنکھ ہے جو اس شہید کر بلا کی پیاس کے تصوّر سے بھیگ کر فرات بننے کی خواہاں نہ ہو ، کونسا دل ہے جو حسینؑ کی محبت کو سمیٹنے اور اپنے قلب و نظر میں سمونے کے لیے صحرائوں کی طرح پھیل جانے کا خواہشمند نہ ہو ، --- خانوادۂ نبوّتﷺ، اہل بیتِ رسالت ﷺ اور پھر شہید کربلا--- اور ان کی ذات گرامی سے اگر کوئی معاملہ ہوسکتا ہے تو محض عشق کا ، محبت کا ،عقیدت و مؤدّت کا ، کہ جس کے لیے ہر صاحبِ ایمان ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کا تمنائی ہے ، ان کا وہ جذبۂ قربانی ، جس کی مثال انسانی تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے۔ان کی خاکِ پا اور نشانِ راہ جن کو آنکھوں کا سُرمہ بنانے کی طلب و تڑپ برسوں پہلے اقبال نے بھی کی تھی :۔ خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂ دانشِ افرنگ سُرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف اور جوش کے بقول تو حسینؑ صرف گذشتہ نسلوں کا نہیں ، آنے والے انسانی قافلوں کا بھی رہبر و راہنما ہے ۔ انسان کو بیدار تو ہو لینے دو ہرقوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین کل کے اس اجلاس کا مرکزی اور بنیادی نقطہ "محرم الحرام" تھا، جس میں لا محالہ شیعہ اکابرین کی صائب آراء سے حاصل کردہ راہنمائی کے نتیجہ میں ایک جامع لا ئحہ عمل کی تیاری مقصود تھی ۔ ویسے محرم الحرام تو ہر سال ہی آتا ہے ، لیکن یہ مقدس اور محترم مہینہ اس سال ہمارے لیے زیادہ دُکھوں اور صدموں میں آرہا ہے ، جس کا یقینا،ایک سبب " کوویڈ19ـ" ہے ، جس کے سبب حج جیسا سالانہ عالمگیر اجتماع بھی اپنے روایتی تزک و احتشام اور شان و شکوہ کی بجائے علامتی طور پر ، انتہائی محدود سطح پر وقوع پذیر ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ بالخصوص و طنِ عزیز کی وہ فضا، جو آنے والے ایام میں خانوادۂ رسولﷺ کی کربلا کے ریگزار پر لازوال قربانیوں کے عقیدت اور رقت آمیز تذکروں سے آراستہ ہوگی ،اور ہونی بھی چاہیے … لیکن اس میں یہ کرب بھی موجود ہوگا ، وہ سیدۃُالنساالعالمینؓ، جس کو تاجدارِختمی مرتبت ﷺ نے اپنے جگر کا ٹکڑا اور پارہ جاں قرار دیا ۔جس کی ، تکلیف کو اپنی تکلیف سے تعبیر کیا ، جس کا سارا کنبہ اسلام کو زندگی اور تابندگی عطا کرتے ہوئے ، کر بلا کے ریگزار پہ خاک و خوں سے نہا گیا ۔ان کے لیے کیا تاریخ میں پہلے صدمات کم تھے ، کہ اب ان کے وجود سعیدکی طرف " خطا کی نسبت" جیسے مذموم فعل کے ارتکاب جیسی گھنائونی حرکت بھی عمل میں آگئی، ایسے حالات میں یقینا صائب مذہبی قوتوں کو آنے والے ایام میں بڑے صبر ، حوصلہ، تدبر اور معاملہ فہمی کیساتھ آگے بڑھنا اور وطنِ عزیز کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی موجودہ فضا کو مزید مضبوط اور مستحکم کرنا ہوگا۔ اس سلسلے میں حکومت پنجاب ، محکمہ اوقاف ومذہبی امور کے پلیٹ فارم سے متحدہ علماء بورڈ کی طرف سے 1997 میں تمام مکاتب فکر کے اکابر علماء اور مذہبی شخصیات کا متفقہ حسب ِذیل "ضابطہ اخلاق" یقینا اہم اور اس کی تجدید اور اعادہ کی موجودہ حالات کے تناظر میں پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔ 1۔"توحید" ملت اسلامیہ کے عقائد کا مرکزی نقطہ اور فکر و عمل کی اولین اساس ہے ۔ یہ نقطہ عام اسلامی عقائد و اعمال اور جملہ اسلامی تعلیمات کے لیے اصل الاصول کا درجہ رکھتا ہے ۔ یہی عقیدہ عالم کفر و طاغوت کے مقابلے میں ہماری ایمانی قوت کا سر چشمہ ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات میں کسی طور پر بھی شرک کا ارتکاب ظلم عظیم ہے ۔ 2۔خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی ﷺ کی رسالت پر ایمان آپ کی ذات اقدس کی محبت و اطاعت کی نسبت، ہمارے دینی تشخص، اجتماعی بقاء اور ملی استحکام کی بنیاد ہے ۔ آپﷺ کی ختم نبو ت پر غیر متزلزل یقین ہمارے ایمان کا ناگزیر جزو ہے۔ تحفظ نا موس رسالت ہماراا یمانی فریضہ ہے ۔ حضور ﷺ کی بالواسطہ و بلا واسطہ، صراحۃً یا کنا یتہ ادنیٰ گستاخی کا مرتکب بھی کافر ، مرتد اور واجب القتل ہے۔ 3۔ملت اسلامیہ کا متفقہ اور اجتماعی عقیدہ ہے کہ قرآن کریم قیامت تک کے تمام انسانوں کے لیے آخری اور مکمل ضابطہ حیات ، سر چشمہ ہدایت اور واجب الاطاعت ہے ۔ اس پر کامل یقین ایمان کا بنیادی تقاضہ ہے ۔ یہ رسول اکرمﷺ کا جاودانی معجزہ ہے ۔ اس کتاب الٰہی پر دین و ملت کی اساس قائم ہے یہ سورۃ فاتحہ سے والناس تک ہر قسم کی کمی و بیشی اور تحریف سے ہمیشہ محفوظ رہا ہے اور رہے گا۔ کیونکہ باری تعالیٰ نے "انانحن نزلنا الذکروانا لہ لحفظون" فرماکر خود اس کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے ۔ اس کے خلاف عقیدہ رکھنے والا شخص خارج ازاسلام ہے۔ 4۔"حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام صحابہ کرامؓ بالخصوص خلفائے راشدینؓ اوراُمہات المؤمنین رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ادب واحترام اور تعظیم وتکریم پوری اُمت مسلمہ کے لیے واجب ہے اورہر ایسا قول وعمل جس سے ان کی بالواسطہ یابلا واسطہ تنقیص واہانت کا پہلو نکلتا ہو ،حرام ہے۔ " 5۔ "حُب اہل بیت کرام و ائمہ اطہار رضوان اللہ علیہم اجمعین اساس ایمان اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا جزولاینفک ہے ۔ ان ذوات مقدسہ کا ادب واحترام واجب ہے ۔ اہل بیت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بغض وعنا درکھنے والا ایمان سے محروم اور خارج از اسلام ہے ۔ہر ایسا قول وفعل جس سے ان کی بالواسطہ یا بلا واسطہ تنقیص واہانت کا پہلو نکلتا ہو ،صریحاً ضلالت وگمراہی ہے۔"