پچھلے دنوں کچھ معروف ادیبوں اور شاعروں کے سوانح حیات پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ ان خودنوشتوں سے جہاں ان عظیم ہستیوں کے شب و روز اور خوبیوں خامیوں سے کسی قدر آگاہی ہوئی وہیں ان حضرات کے بیچ ایک قدر مشترک بھی نظر آئی اور وہ یہ کہ ان میں سے اکثرو بیشتر کے اپنی بیگمات کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں رہے ۔ ان ادبی مشاہیر کی اپنی بیگموں کے ساتھ اکثروبیشتر ان بن رہی اور ان کے درمیان تعلقات مثالی تو کیا نارمل بھی نہیں رہے بلکہ زیادہ تر معاملہ سنگین کشیدگی اور باقاعدہ پھڈے کا رہا۔چنانچہ ان مسلسل ناچاقیوں کے باعث کئی ایک نے تو جلد ہی علیحدگی اختیار کر لی جبکہ دوسری طرف ایک بڑی تعداد ایسی شخصیات کی ہے جو عمر بھر تعلق تو نبھاتے رہے لیکن اس دوران ان کی کوشش رہی کہ ان کا یہ تعلق محبت ، چاہت ، قربت اور اپنائیت جیسی ’خرافات‘سے پاک ہی رہے۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ شاعر ، ادیب لوگوں کا اپنا ایک مزاج ہوتا ہے ۔ان کی طبیعت میں تخلیقی صلاحیت کے ساتھ ساتھ بے پناہ حساسیت بھی موجود ہوتی ہے ۔ آئن سٹائن کہتا تھا کہ غیر معمولی ذہین انسانوں کو کئی طرح کے نفسیاتی مسائل بھی درپیش ہوتے ہیں اور وہ کبھی خوش نہیں رہ سکتے ۔اسی طرح ایک انگریز دانشور کا کہنا ہے کہ شعور آپ کو ایسی تکلیف میں ڈالتا ہے جسے عام عوام سمجھ ہی نہیں سکتے لہٰذا اس تکلیف میں آپ اکیلے ہی ہوتے ہیں۔ شاعر ادیب بھی غیر معمولی لوگ ہوتے ہیں۔ کئی دفعہ یہ بھی اس طرح کے مسائل کا شکار ہوتے ہیں ایسے میں انہیں کسی ایسے انسان کا ساتھ درکار ہوتا ہے جو ان کی ذہنی سطح کو سمجھتے ہوئے انہیں درپیش الجھن اور مسئلے کے کسی مناسب حل کی تلاش میں ان کی مدد کرے۔ چنانچہ ایسے کسی مسئلے میں مدد اور حل کے لیے ساتھ رہنے والے شریک ِ حیات کی طرف نظر جانا ایک فطری سی بات ہے ۔لیکن ایسی ذہنی مطابقت اور ہم آہنگی ہمیں ان مشہور ادبی تخلیق کاروں اور ان کے رفقاء حیات کے بیچ بہت کم نظر آتی ہے۔ دوسری طرف یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بیگمات کے پاس عموماً مسئلوں کے حل کے برعکس ہر حل کے لیے ایک مسئلہ موجود ہوتا ہے ۔ چنانچہ یوں ’ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی ‘ کے مصداق مسائل حل ہونے کی بجائے مزید الجھتے رہتے ہیں ۔ انگریزی میں ایک معروف قول ہے کہ ایک شاعر کی بیوی یہ سوچ ہی نہیں سکتی کہ جب اس کا شوہر اپنے کمرے کی کھڑکی کے باہر جھانکتے ہوئے پھول ، پودے درخت اور دیگر فطری حُسن کو دیکھ رہا ہو تو وہ کوئی قابلِ ذکر کام کر رہا ہوتا ہے یعنی اس کے نزدیک وہ اس طرح بیٹھا محض وقت ضائع کر رہا ہوتا ہے جبکہ بہت ممکن ہے کہ وہ بیچارہ اس وقت تخلیقی عمل سے گزر رہا ہو ۔اس حوالے سے علامہ اقبال کے صاحبزادے جاوید اقبال کی اپنی کتاب میں لکھی ایک تحریر ہمیں یاد آتی ہے وہ لکھتے ہیں کہ اُن کی والدہ ماجدہ اقبال سے کہتی رہتیں کہ شاعری بہت ہوچکی اب کوئی کام بھی کر لیا کریں اور اقبال یہ سن کر مسکراتے رہتے ۔ مرشدی غالبؔ تمام عمر اپنی شادی کے بندھن کو پائوں کی بیڑی سے مشابہت دیتے رہے ۔ اُن کے مشہور شعر ’’ رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو / ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو ‘‘ کی شان نزول بھی ہمیں ان کے مثالی گھریلو تعلقات دیکھ کر سمجھ آتی ہے ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ شہرہ آفاق ناول نگار چارلس ڈکنز کی ازدواجی زندگی بے حد ناکام رہی ۔ان کی شادی کوئی تئیس برس چلی اور اس دوران دس بچے بھی پیدا ہوئے لیکن ان کے درمیان محبت نام کی کوئی چیز نہ تھی ۔اس نگوڑی شادی میں اگر ’ محبت ‘ بھی شامل ہوتی تو نجانے بچوں کی آخری تعداد کیا رہتی ۔ معروف روسی ناول نگار لیو ٹالسٹائی کہتا تھا کہ اس کی بیگم نے گھر کو جہنم بنا رکھا ہے ۔بستر مرگ پہ اس کی آخری خواہش تھی کہ بیگم کو اس کے پاس نہ آنے دیا جائے ۔ ٹالسٹائی کی شادی کو پچاس سال ہوگئے وہ بڑھاپے کو پہنچا اور کشیدہ گھریلو حالات کا مقابلہ کرنے کی سکت نہ رہی تو وہ ایک رات گھر سے نکل گیا اور پھر کچھ دنوں بعد ایک ریلوے سٹیشن پر بے یارومددگار انتقال کر گیا ۔ اور تو اور شادی کے حوالے سے ولیم شیکسپیئر کے حالات بھی کوئی زیادہ خوشگورا نہ تھے ۔ سچ پوچھیں تو ا س کی زندگی کا سب سے بڑا دکھ اس کی شادی ہی تھی۔ اس کی بیوی اس سے آٹھ برس بڑی تھی اور شروع دن سے ہی ان کے تعلقات میں شدید تلخی در آئی تھی ۔ ان کے تعلقات کی نوعیت کا اندازہ اس سے لگایئے کہ شیکسپیئر نے اپنی وصیت میں بیوی کے نام ایک پائی بھی نہیں لکھی تھی ۔ معروف انگریزی رومانوی شاعر لارڈ بائرن نے اپنی شادی کے محض دو گھنٹے بعد ہی اپنی بیگم کو بتا دیا کہ وہ اس سے نفرت کرتا ہے چنانچہ ان کی شادی فقط ایک سال ہی چل سکی میدانِ ادب کی عظیم ہستیوں سے متعلق یہ انکشاف یقینا کوئی خوش آئند نہیں ہے لیکن یہ تھوڑا حوصلہ افزا ضرورہے ۔ ادب کے ساتھ ہماری بھی صاحب سلامت ہے اور جب سے ہم نے ان ادبی مشاہیر کے ابتر خوانگی حالات و معاملات کا پڑھا ہے ہمیں تھوڑا حوصلہ اور ایک اُمید سی نظر آئی ۔ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اگر بندہ ادبی معرکہ آرائی کے لیے سنجیدہ ہو تو پھر اسے خوشگوار گھریلو حالات کے چونچلوں میں نہیں پڑنا چاہیے ۔ چنانچہ اب جب گھرمیں کبھی کبھار بیگم کے ساتھ ماحول قدرے کشیدہ دکھائی دیتا ہے ( اور یہاں ’کبھی کبھار ‘ اضافی ہے ) تو یہ جان کر تھوڑا اطمینان سا ہوتا ہے کہ اس صورتحال میں ہم کئی عظیم لوگوں کے ساتھ کھڑے ہیں ۔ ٭٭٭٭٭