ایک مدت گزر گئی، دریائے جہلم اور نیلم کے پلوں سے کتنا پانی آیا اور گزر گیا۔زندگی کے ایام ماہ و سال میں ڈھل گئے ‘ آدھی صدی گزر گئی۔ اس صدی میں کشمیریوں پر قیامتیں آئیں اور گزر یں ‘ اس کا اندازہ تو وہی کر سکتاہے جس پر یہ دور گزرا ہو۔ آزاد کشمیر میں 24 کتوبر 1947ء کو ایک عبوری حکومت قائم کی گئی جس کا ہیڈ کواٹر پلندری رکھا گیا جو کہ بعد میں تبدیل ہو کر مظفر آباد ہو گیا۔ مسلم کانفرنس کے لیڈر سردار محمد ابراہیم آزاد کشمیر کی عبوری حکومت کے صدر منتخب ہوئے۔آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتوں کے قائدین 1985ء تک بڑی حد تک نظریاتی سیاست کے زیر اثر رہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ذاتی اور اجتمائی مفادات نے نظریاتی سیاست کی جگہ لے لی۔آزاد کشمیر کی سیاسی تاریخ سیاسی رہنماؤں اور سیاسی جماعتوں کے عروج وزوال کی ایک عجیب داستان ہے۔مولانا سید مظفر ندوی تحریک آزادی کے رہنما تھے ‘انہوں نے مجھے بڑے درد سے بتایاتھا۔ آزاد کشمیر کے بانی صدر سردار محمد ابراہیم 20 نومبر 1948ء کو اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل کے اجلاس میں شریک ہو تے ہیں اور وہاں پر ایک دھواں دار تقریر کرتے ہیں۔ اس تقریر میں انہوں نے کہا کہ حکومتِ پاکستان نے جنگ بندی کرکے شدید غلطی کی ہے کیونکہ بھارت ’’استصواب رائے‘‘ کے وعدہ میں مخلِص نہیں اور اْس نے محض وقت حاصل کرنے کیلئے اقوام متحدہ میں جانے کا ڈھونگ رچایا ہے‘‘۔ ’’1948ء میں آزاد کشمیر کا دارالحکومت مظفر آباد منتقل ہوئے چند ہی روز گزرے تھے۔ اولڈ سیکرٹریٹ کی آج کی عالی شان مسجد کی جگہ اس وقت ایک چھپر تنا تھا۔ مسجد کا چھپر ہی کیا چھپر تھا ؟ تمام سیکرٹریٹ خیموں اور چھپروں میں قائم تھا۔ خیموں کی ایک قطار میں رہائش تھی اور دوسری قطار میں ’’ ایڈمن بلاک۔‘‘ ’’بے سروسامانی اپنے عروج پر تھی‘آزا دکشمیرکا دارالحکومت دنیا کا انوکھا دارالحکومت تھا۔جس میں کابینہ کے وزیر خیموں میں دفاتر جما کر بیٹھتے تھے۔وزیروں کے پرائیویٹ سیکرٹری اور عملہ ٹاٹ بچھا کر زمین پر بیٹھتا۔ ایک جذبہ تھا جس کے ہاتھوں مجبور حکومت کے یہ کارکنان برسرعمل تھے۔ایک عزم تھا جو ان وزیروں مشیروں کو سر گرم عمل رکھتا تھا۔عوام تھے کہ ولولوں سے لبریز رہتے تھے‘آزادی کی خاطر ہر قربانی دینے کو بے تاب و بے قرار۔‘‘ مولانا ندوی نے بتایا۔’’نومولود آزاد حکومت کا سیکرٹریٹ کچھ ہی روز قبل پلندری سے مظفر آباد منتقل ہوا تھا۔ سیکرٹریٹ کے ساتھ مذہبی امور کی نگرانی کے لیے یا یوں کہہ لیں’’وزارت مذہبی امور ‘‘چھپر نما مسجد میں قائم تھی۔ بارشوں کے دوران وہاں نماز پڑھنا ممکن نہ رہتا سارا پانی اندر آ جاتا تھا۔ ایک روز مجھے معلوم ہوا کہ ٹین کی کچھ چادریں عطیے کے طور پر صدر صاحب کے پاس آئی ہیں ‘ میں ان کے دفتر گیا اور مسجد کی حالت زار بتاتے ہوئے کہا ‘ اگر ممکن ہو تو کچھ چادریں مسجد کے لیے دے دی جائیں تا کہ اس کی چھت مضبوط ہو جائے۔ تب آزاد کشمیرکے صدر سردار محمد ابراہیم خان تھے۔ نوجوان سراپا جہد بیرسٹر محمد ابراہیم خان !! انہوںنے میری بات بہت غور سے سنی لیکن معاً بعد ذرا سختی سے مجھے گھورتے ہوئے فرمانے لگے۔ ’’ ندوی صاحب ! یہاں مسجد کس کے لیے … کس لیے بنائیں گے ‘آپ مسجد۔یہاں کس نے رہنا ہے ‘ کچھ دن گزارنے ہیں کہ ہم سری نگر میں ہوں گے۔ وہاں شاندار دارالحکومت منظم کریںگے ‘ میں اس عارضی دارلحکومت میں اس طرح کی تعمیرات کا کوئی فائدہ نہیں سمجھتا۔ آزادی لے کر رہیں گے اور ان شاء اللہ مسجدیں بھی بنیں گی اور سیکرٹریٹ بھی لیکن صرف سری نگر میں۔‘‘ ندوی صاحب بولے …لیکن … صدر صاحب نے چیخ کر کہا لیکن ویکن کچھ نہیں آپ جائیں اسی چھپڑ میںنماز پڑھائیں۔ اس کے بعد بہارو خزاں کے کتنے موسم آئے اور گزر گئے۔ جواں سال صدر کی جوانی ڈھلنے لگی۔ مظفر آباد کا بیس کیمپ ‘ جہاں سے سری نگر کی جانب یلغار ہونا تھی ‘ جہاں سے آزادی کی جدوجہد کو تیز ہونا تھا ‘ دیکھتے ہی دیکھتے مظفر آباد محض دارالحکومت بن گیا اور پھر اس کل کاانتظار ہی رہا جس کا وعدہ جواں سال ندوی سے فرمایاتھا۔ مولانا مظفر ندوی اس کل کے انتظار میں وہاں سے اٹھ آئے اور یوں پون صدی گزر گئی۔ چھپر کی جگہ ایک عالی شان مسجد سینہ تان کر کھڑی ہو گئی۔سردارابراہیم اور مولانا ندوی بھی اپنی باری پوری کر کے چلے گئے۔ آزاد کشمیر کا عارضی دارالحکومت خیموں سے چھپروں ‘ چھپروں سے کمروں اور کمروں سے عالی شان محلوں میں منتقل ہوگیا۔ سردار ابراہیم خان جس قطعہ زمین پر خیمے کے اندر صدارت فرماتے تھے اب وہاں ایک با وقار عالی شان صدارتی سیکرٹریٹ ہے۔جہاںایک ٹوٹی پھوٹی جیپ صدر کی کل متاع سفر تھے۔اب وہاں وزیروں اور افسروں کے جلو میں پجیرو گاڑیوں ‘ مرسیڈیز کاروں اور جدید ترین جیپوں کے ’’کانوائے ‘‘ رواں دواں نظرآتے ہیں۔ تب اور اب کے نقشے میں زمین و آسمان کا فرق آ چکا ہے۔ اس روز اور آج کے درمیان 70 برس کا ایک طوفانی دور کھڑا ہوا ہے۔غلامی کی طویل رات ‘ مصائب و آلام کا دور ‘ اقتدار پرستی اور منزل سے دوری کا دور۔ عزت و رفعت کی زندگی چھوڑ کرمسکنت اور پستی کی سیاہ زندگی کا دور …!! کوئی چیز ‘ کوئی مماثلت آج باقی نہیں لیکن صرف ایک ،سردار محمد ابراہیم خان کی جگہ اب برسٹر سلطان صدر ہیں۔!! تب چھپر میں ایک جوان سال ‘ ہر دل عزیز بے باک ‘ چاک و چوبند ‘ سرخ و سفید ‘ شعلہ بار ‘ سر گرم عمل … آزادی کے لیے بے تاب و بے قرار سردار محمد ابراہیم خان بیٹھا تھااور آج ایک ویسا ہی قانون دان۔۔۔ لیکن آزادی کی طلب شاید سینوں میں بوڑھی ہو چکی۔ان سب کے دل میں شاید اب بھی آزادی کا عزم کروٹیں لیتا ہو ‘ جن کی بے باکی ‘ خود داری اب بھی مثال کے طور پر پیش کی جاتی ہو ‘ لیکن یہ کیا ہوا ؟ خط مستقیم کا سفر دائرے میں کیوں حرکت کرنے لگا؟جہاں سے چلے تھے پون صدی بعد پھر وہاں پہنچ گئے۔ اقتدار کی غلام گردشیں کس نے بنا ڈالیں کہ ہم اپنے گھر کاراستہ بھول گئے۔ منزل سے بے خبر ایک سراب کے پیچھے لگ گئے۔ مسجد کی چھت کا ذکر نہ تھا کہ سری نگر کی منزل کھوٹی ہوتی تھی ‘ ایک خیمے کی جگہ کمرہ نہ بناتے تھے ‘ کہیں راستے کا پتھر نہ بن جائے‘ تو پھر ‘یہ محلات یہ لائو لشکر یہ کانوائے …؟؟سب کچھ اپنی جگہ درست لیکن مظفرآباد سے سری نگر آج بھی ستر میل کی مسافت پر ہے۔بیس کیمپ کو سب کچھ ملا ہو گالیکن وہ کچھ نہ ملاکاجس کے لیے سفر آغازکیا تھا۔ یہ سب کس نے کیا ؟ کیوں کیا ؟ اتنا خون بہہ گیا پھر بھی خون کی لکیر ہمیں وہاں تک نہ لے گئی جہاں سے یہ پھوٹ پھوٹ کر نکل رہا ہے۔