پاکستان میں بدامنی کی خواہاں قوتیں سرگرم ہونے سے دہشت گردانہ واقعات میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔اتوار کے روز کوئٹہ میں 2 دھماکے ہوئے جن میں 2سکیورٹی اہلکار جاں بحق اور 22افراد زخمی ہوئے۔پہلا دھماکہ سرینا چوک اور دوسرا سریاب روڈ پر ہوا۔ دوسرے واقعہ میںدہشت گردوں کے خلاف سکیورٹی فورسز نے کارروائی کرتے ہوئے ڈیرہ اسماعیل خان میں کالعدم تنظیم کے کمانڈر کو ہلاک کر دیا۔اسی روز شیخو پورہ کے علاقے فیروز والہ میں کائونٹر ٹیررازم اہلکاروں نے کرائے کے مکان میں رہائش پذیر تین افغان دہشت گردوں کو ہلاک کیا۔افغان دہشت گردوں نے محرم الحرام کے دوران تخریب کاری کا بڑا منصوبہ بنا رکھا تھا۔سکیورٹی اہلکاروں نے موقع سے بارود اور دہشت گردی میں استعمال کی نیت سے رکھا دوسرا سامان قبضے میں لے لیا ہے۔یہ صورت حال کی عمومی تصویر ہے۔کچھ عرصہ سے ہر ہفتے بدامنی پھیلانے اور تخریبی کارروائیوں کے تین سے چار واقعات تواتر کے ساتھ دیکھے جا رہے۔بڑھتی ہوئی بدامنی اور دہشت گردوں کا سرگرم ہونا ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان کا امن اور معاشی ترقی کچھ قوتوں کو قبول نہیں اور وہ گڑ بڑ پھیلا کر اپنے مقاصد کی تکمیل چاہتی ہیں۔پاکستان میں تخریبی کارروائیوں کے حوالے سے دو ہمسایہ ممالک بھارت اور افغانستان کا کردار مختلف اوقات میں افسوسناک رہا ہے۔کچھ ایسے ہمسایہ ممالک اور بین الاقوامی طاقتیں بھی ہیں جو براہ راست نہ سہی بالواسطہ پاکستان میں گڑ بڑ پھیلانے میں ملوث رہی ہیں۔حالیہ واقعات کا تجزیہ بتاتا ہے کہ دہشت گرد سکیورٹی اہلکاروں کو نشانہ بنا رہے ہیں یہ پیٹرن ظاہر کرتا ہے کہ سکیورٹی ادارے امن دشمن طاقتوں کے مذموم منصوبوں کا راستہ روکے ہوئے ہیں۔سکیورٹی اہلکاروں کو نشانہ بنا کر انہیں خوفزدہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔اس حکمت عملی کے ذریعے دہشت گرد عوام میں یہ تاثر پھیلاتے ہیں کہ جو سکیورٹی ادارے اور اہلکار اپنا تحفظ نہیں کر پاتے وہ نہتے عوام کی حفاظت کیسے کر سکیں گے۔ دہشت گردی کے واقعات کا ایک پیٹرن علاقائی ہے۔سبی‘گوادر ‘وزیرستان ‘کوئٹہ‘تربت وغیرہ ایسے مقامات ہیں جہاں تواتر سے دہشت گردی سے متعلق واقعات رپورٹ ہوتے ہیں۔یہ علاقے افغانستان اور ایران کے ہمسائے میں ہیں۔بھارت نے افغانستان میں اپنا سیاسی و انتظامی اثرورسوخ بڑھا کر جو کام پہلی ترجیح کے طور پر کیا وہ پاکستان میں بدامنی پھیلانا تھا۔بھارت کے چار قونصل خانے ایسے افراد کو تربیت دیتے‘مالی مدد فراہم کرتے اور لانچنگ سہولیات فراہم کرتے رہے۔بھارت نے پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے لئے کثیر الجہتی حکمت عملی اختیار کر رکھی ہے۔ایف اے ٹی ایف میں اپنی طاقتور حیثیت کا فائدہ اٹھا کر پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل رکھنے کے لئے کوشش کی۔اس کا اعتراف بھارتی وزیر خارجہ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے سامنے کر چکے ہیں۔حال ہی میں بھارت نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی صدارت سنبھالی ہے۔یہ مدت اگرچہ ایک ماہ کے لئے ہے لیکن بھارت اس ایک مہینے کے اندر پاکستان اور کشمیر کے بارے میں عالمی ادارے کے تاریخی ریکارڈ کو اپنے حق میں بدلنے کی کوشش کر رہا ہے۔تین روز قبل سلامتی کونسل کے اجلاس میں افغان مندوب نے بھارت کے اشارے پر پاکستان پر دہشت گردی کی حمایت کے الزامات لگائے۔پاکستان نے ان الزامات کا جواب دینے کی اجازت چاہی تو یہ درخواست مسترد کر دی گئی۔بھارت کی جانب سے پاکستان کے ساتھ رابطوں کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔گزشتہ ہفتے مظفر آباد میں کشمیر پریمیر لیگ میں شرکت کرنے والے غیر ملکی کھلاڑیوں اور آفیشلز کو بھارت نے کھلی دھمکی دی کہ کشمیر پریمیر لیگ میں شرکت کی صورت میں انہیں بھارت میں داخلے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔پاکستان اور بھارت کھیلوں کے دوطرفہ مقابلے نہیں کر سکتے۔یہ وہ اقدامات ہیں جن کے ذریعے بھارت نے پاکستان کے ساتھ پرامن تعلقات کا راہ مسدود کر رکھا ہے۔پاکستان علاقائی تنازعات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کا حامی ہے۔اس سلسلے میں چین‘روس‘ازبکستان‘ ایران اور ترکی پاکستان کی حمایت کر رہے ہیں۔چین کے تعاون سے پاکستان نے خطے کی ترقی کا نیا ماڈل اختیار کیا ہے۔اس ماڈل کے تحت خطے کے تمام ممالک کو شاہراہوں‘ریل رابطوں اور بندرگاہوں کے ذریعے ایک دوسرے سے جوڑا جا رہا ہے۔خطے کا داخلی استحکام اور ہمسایہ ممالک کے مابین تجارتی تعاون بڑھنے سے کئی عالمی طاقتوں کے کاروباری مفادات متاثر ہوتے ہیں۔بھارت اپنے ہمسایہ ممالک کو نظرانداز کر کے ایسی بیرونی قوتوں کا آلہ کار بننے کو آمادہ دکھائی دیتاہے۔دہشت گردی کے حالیہ واقعات کا تعلق افغانستان کی بگڑتی ہوئی سکیورٹی صورت حال سے بنتا ہے۔ جو کھیل امریکہ‘بھارت اور افغان حکومت بین الاقوامی سازشوں کے ذریعے رچا رہے ہیں اس کو تخریبی سرگرمیوں کی شکل میں سی پیک منصوبوں والے علاقوں تک پھیلایا جا رہا ہے۔دہشت گردوں کی حکمت عملی میں نیا رجحان بڑے اور نسبتا پرامن شہروں کو نشانہ بنانا شامل ہو چکا ہے جس کا ثبوت فیروز والہ میں مارے جانے والے دہشت گرد ہیں۔سکیورٹی ادارے اور انٹیلی جنس ایجنسیاں امن دشمن عناصر کی حکمت عملی سے آگاہ دکھائی دیتے ہیں اسی لئے دہشت گردوں کو بڑی کارروائی سے قبل گرفت میں لے لیا گیا تاہم یہ صورت حال فکر مندی کا باعث ہے۔کہیں بھی اور کسی مقام پر ذرا سی چوک سے ملک دشمن عناصر کو کارروائی کرنے کا موقع مل سکتا ہے۔خصوصاً محرم الحرام کے دوران جب جگہ جگہ عزا داری کے جلوس اور مجالس کا سلسلہ برپا ہوتا ہے تو پولیس اور انٹیلی جنس اہلکاروں کی نفری کم پڑ جاتی ہے۔یہ صورت حال تقاضا کرتی ہے کہ انٹیلی جنس نظام کو مزید چوکس بنایا جائے‘سیف سٹی کیمرے درست رکھے جائیں اور کسی جگہ گڑ بڑ کی اطلاع پر فوری کارروائی کی جائے۔