کچھ عرصہ قبل 92 نیوز چینل کی صبح کی نشریات میں دل کے موضوع پہ براہِ راست نشر ہونے والے ایک مذاکرے میں ، جہاں ہمیں اُردو شاعری میں دل کے تصور پہ بات کرنے کی غرض سے مدعو کیا گیا تھا، خاتون میزبان (غالباً اقرا بخاری) نے تعارف کے فوراً بعد پوچھا: ’’ڈاکٹر صاحب! آج آپ دل کی بات کرنے آئے ہیں ؟ ‘‘ ہم نے ان کی اصلاح اور اپنے دفاع کی خاطر عرض کیا: ’’محترمہ یہ پروگرام گھر میں میری بیوی بھی دیکھ رہی ہے، اس لیے تصحیح کیے دیتا ہوں کہ آپ نے مجھے دل کی بات کرنے کے لیے نہیںبلکہ دل پہ بات کرنے کے لیے بلایا ہے۔‘‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ دل انسانی جسم کا سب سے اہم عضو ہے۔ تمام جسمانی، روحانی، نفسیاتی اطبا اور جملہ ادبی، علمی، جذباتی سوجھوان ،جسمانی اعضا پر اس کی حکمرانی کے دل سے قائل ہیں۔ حدیثِ پاک ہے کہ ’تمھارے جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے، اگر وہ صحیح ہے تو پورا جسم صحیح، وہ خراب تو پورا جسم خراب‘… پھر تمام صوفیا بھی جہاں اس بات پہ متفق ہیں کہ: دل دریا سمندروں ڈُونگھے، تے کون دلاں دیاں جانے ہُو وہاں وہ اس بات کا بھی جا بہ جا پرچار کرتے پائے گئے ہیں کہ: مسجد ڈھا دے، مندر ڈھا دے، ڈھا دے جو کُجھ ڈھیندا پر کسے دا دل نہ ڈھاویں ، رَب دلاں وچ رہندا پھر ہماری اُردو شاعری تو دل کے رنگا رنگ تذکرے کے بغیر مکمل ہی نہیں ہوتی۔ قلی قطب شاہ کی تاریخی اولیت کے باوجود قابلِ فہم اُردو شاعری کا باقاعدہ آغاز ولی دکنی سے ہوتا ہے، جو اسی دل کی مختلف کیفیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: تجھ چال کی قیمت سُوں دل نئیں ہے مِرا واقف اے مان بھری چنچل ٹُک بھاؤ بتاتی جا مجھ دل کے کبوتر کُوں پکڑا ہے تِری لٹ نے یہ کام دھرم کا ہے ٹک اس کوں چھڑاتی جا ربع صدی تک اردو شاعری میں دھوم مچائے رکھنے والی ایہام گوئی کی تحریک کے نہایت اہم شاعر شاکر ناجی کا یہ شعر ملاحظہ ہو: محبت میں علی کی دیکھ ناجی ہوا ہے دل میرا حیدر آباد فیض احمد فیض کا کہنا ہے کہ اگر ہم مختلف صدیوں کو عظمتِ فن کی بنا پر مختلف شاعروں کے ساتھ منسوب کریں تو بلا شبہ اٹھارھویں صدی میر تقی میر کی صدی ہے، انیسویں صدی غالب کے تذکرے کے بغیر مکمل ہی نہیں ہوتی اور بیسویں صدی کے ماتھے پہ نمایاں طور پر شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال کا نام کندہ ہے۔ اٹھارھویں صدی میں میر کے ساتھ درد، سودا، آتش، اور ناسخ کے نام بھی نمایاں ہیں یاد اُس کی اتنی خوب نہیں میر باز آ نادان پھر وہ جی سے بھلایا نہ جائے گا شام ہی سے بجھا سا رہتا ہے دل ہے گویا چراغ مفلس کا (میر) دل کے ٹکڑوں کو بغل بیچ لیے پھرتا ہوں کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں (سودا) زندگی زندہ دلی کا نام ہے مردہ دل خاک جیا کرتے ہیں (ناسخ) بہت شور پہلو میں سنتے تھے دل کا جو چیرا تو اِک قطرۂ خوں نہ نکلا (آتش) سب مانتے ہیں کہ انیسویں صدی پہ مرزا نوشہ یعنی میرزا اسداللہ خاں غالب کا پھریرا لہرا رہا ہے اور اسی کے جھنڈے تلے ذوق، مومن، شیفتہ، ظفر، داغ، حالی ٹھیک ٹھاک گزر بسر کر رہے ہیں۔ دل ان کی شاعری کے ہاتھوں سے بھی پھسلا چلا جا رہا ہے۔ انداز دیکھیے: دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت ، درد سے بھر نہ آئے کیوں روئیں گے ہم ہزار بار غیر ہمیں ستائے کیوں ہاں وہ نہیں خدا پرست ، جاؤ وہ بے وفا سہی جس کو دین و دل عزیز، اُس کی گلی میں جائے کیوں جلا جسم جہاں دل بھی جل گیا ہوگا کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے؟ دلِ ناداں تمھیں ہوا کیا ہے ؟ آخر اس درد کی دوا کیا ہے ؟ (غالب) دل لے کے مفت کہتے ہیں کچھ کام کا نہیں اُلٹی شکایتیں رہیں ، احسان تو گیا (داغ) کون و مکان سے ہے دلِ وحشی کنارہ گیر اس خانماں خراب نے ڈھونڈا ہے گھر کہاں (حالی) اُردو میں دل کے لیے بالعموم جی، جنون، من، آئینہ، جذب، جذبہ، شوق، وارفتگی، عشق اور سینہ کے الفاظ رائج رہے ہیں، ان الفاظ کے مقابل عقل کے لیے بھی خرد، جسم، مشین، فلسفہ جیسے الفاظ کا پورا نیٹ ورک موجود ہے۔ اقبال کے ہاں تو عقل و عشق کے درمیان اکثر گھمسان کا رَن پڑتا ہے لیکن جیت ہمیشہ دل کی ہوتی ہے۔ کہیں فرماتے ہیں: بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق (اپنے حکیم جی تو اس بے خطر کو بھی ہمیشہ بے صبر ہی پڑھتے پائے گئے ہیں) کبھی ارشاد ہوتا ہے: کیالطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو زندگی میں محض ایک بار دل کی مذمت کی تو پکڑ میں آ گئے۔ مشہور واقعہ ہے کہ جب مسلمانوں نے ہندوؤں کی ضد میں آ کے راتوں رات مسجد تعمیر کر دی تو اقبال نے قوم کو عام زندگی میں بھی حُسنِ عمل پہ مائل کرنے کی خاطر کہا: مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے دل اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا پروفیسر دل محمد اس زمانے میں لاہور کی ایک اہم علمی، ادبی شخصیت تھے، انھوں نے احتجاج کیا کہ حضرت آپ نے مجھے سیدھا سیدھا ’پاپی‘ ہی کہہ دیا، کچھ تو خیال کیجیے، تب اقبال نے پروفیسر دل محمد کا دل رکھنے کی خاطر ’دل‘ کو ’من‘ سے بدل کے شعر یوں کر دیا: مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا (جاری ہے)