کارکن بیچارے ادھر کے ہوں یا اُدھر کے انہیں کچھ پتہ نہیں کہ اندر ہی اندر کیا ہو رہا ہے۔ کون آ رہا ہے کون جا رہا ہے کسی کو کچھ خبر نہیں۔ بہت عرصے سے مسلم لیگ(ن) کے اکابر و اصاغر کا بیانیہ خامشی ہے۔ خموشی گفتگو ہے‘ بے زبانی ہے زبان میری اس ’’خموشستان‘‘ میں۔ ایک میں رونے کو تنہا انجمن میں رہ گیا۔ بلکہ ’’رہ گئی‘‘ کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔ اکیلی مریم اورنگزیب نے مسلم لیگ(ن) کی ترجمانی کا محاذ سنبھال رکھا ہے مگر ان کے بھی ایک دو روز پہلے کے لب و لہجے سے یہ اندازہ نہ ہوتا تھا کہ اندر ہی اندر کچھ ہو رہا ہے۔ مسلم لیگ(ن) کی طرف سے اچانک جو تبدیلیاں قومی اسمبلی میں آئی ہیں اس سے پارٹی کے بڑے بڑے قائدین بے خبر تھے تبھی تو انہوں نے حیرت کا اظہار کیا ہے۔ تاہم مسلم لیگ ن کا ہی نہیں پاکستان کی تمام بڑی بڑی پارٹیوں کا یہی کلچر ہے۔ اہم معاملات کے بارے میں مشاورت کسی سطح پر نہیں ہوتی بس صرف فیصلے سنا دیے جاتے ہیں۔ پچھلی مرتبہ جب جنرل پرویز مشرف دور میں شریف برادران سعودی عرب روانہ ہو گئے تب ان کے جانے کا اعلان ہوا پچھلی مرتبہ شریف برادران نے پارٹی کے ایک انقلابی لیڈر جاوید ہاشمی کو اپنی جانشینی دے کر جو ’دغلطی‘ کی تھی اس بار اس کا ازالہ کر دیا گیا ہے۔ آصف میاں نواز شریف کے معتمد خاص ہیں اس لئے اس بار انہیں ’’قیس‘‘ کا مرتبہ عطا کیا گیا ہے بقول غالب ع جز قیس اورکوئی نہ آیا بروئے کار میاں برادران نے طویل ایام جلاوطنی کے دوران اور کچھ سعودی عرب سے سیکھا ہو یا نہ ہو مگر لگتا ہے کہ انہوں نے سعودی عرب کی ایک ضرب المثل کو اپنے پلے باندھ لیا ہے اگرچہ وہ اس پر عمل پیرا تو پہلے ہی تھے۔ اس کہاوت میں حکمت و دانائی ہے۔ عربی مثل یہ ہے کہ جب طغیانی امڈ کر آئے‘جب غصے سے اونٹ بلبلانے لگے اور جب غیظ و غضب سے غلام کا چہرہ سرخ ہوجائے تو سامنے سے ہٹ جائو۔ شریف برادران ایک بار پھر اسی پالیسی پر عملدرآمد کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ذرا چند ماہ پہلے کا منظر نامہ ذہن میں تازہ کریں تو بات بڑے طمطراق سے شروع ہوئی تھی کہ ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ چلتے چلاتے بات سپریم کورٹ سے ہوتی ہوئی نیب تک پہنچی اور اب نیب نے اوپر سے لے کر نیچے تک شریف فیملی کے گرد گھیرا تنگ کر دیا ہے۔ اسمبلی میں شہباز شریف کی موجودگی بھر پور نہ سہی مگر اپوزیشن کا تاثر تو دے رہی تھی۔ اب ایسا نہیں۔ تیسری دنیا کی شخصی و موروثی پارٹیوں میں چونکہ آزادانہ مشاورت کا نظام نہیں ہوتا لہٰذا انہیں بار بار اس طرح کے ’’حوادث‘‘ کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ اگر میاں نواز شریف صاحب نے قدرت کی نگاہ عنایت کی قدر کی ہوتی اور سیاسی کم بیک کے بعد حقیقت پسندی سے کام لیا ہوتا وسیع تر بنیادوں پر پارٹی کے اندر مشاورت کی روشنی میں اپنے جذبات پر نظرثانی کا کلچر اپنایا ہوتا تو آج میاں صاحب‘ ان کے اہل خاندان اور ان کی پارٹی کو یہ مشکل دن نہ دیکھنا پڑتا۔ پاکستان کی دوسری بڑی پارٹی جو اب 23 برس کی ہو چکی ہے اور برسر اقتدار بھی ہے۔ دو تین روز پہلے اسلام آبادمیں اس پارٹی کا یوم تاسیس بڑی دھوم دھام سے منایا گیا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ خان صاحب یہ پارٹی اجلاس بند کمرے میں منعقد کرتے اور اپنے دعوئوں‘ وعدوں اور نعروں کا جائزہ لیتے۔ پارٹی سے رخصت کر دیے جانے والے کابینہ ممبران اور جن کے قلمدان بدلے گئے ان کے بارے میں پارٹی کو اعتماد میں لیتے اگرچہ اعتماد میں تو فیصلے سے پہلے لیا جاتا ہے بعد میں نہیں مگر دیر آید درست آید کے مصداق ایسے قدم کو بھی سراہا جاتا۔بند دروازے میں یوم تاسیس منایا جاتا تو پارٹی کی اندرونی ٹوٹ پھوٹ کے عمل کو روکنے کی تدابیر زیر بحث لائی جائیں۔ جناب شاہ محمود قریشی اور جناب جہانگیر ترین کے اختلافات کو ختم کرانے کی کوشش کی جاتی۔ کراچی میں پی ٹی آئی کے ایک اجلاس میں جس طرح ایک دوسرے پر کرسیاں پھینکی گئیں ۔ ایک دوسرے کو زدوکوب کیا گیا اور ایک دوسرے کو گالیوں اور مغلظات سے نوازا گیا اس کا مداوا کرنے کے لئے چارہ جوئی کی جاتی اور پارٹی کے اندر اتحاد و اتفاق اور ڈسپلن پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی مگر ایسی کوئی ضرورت محسوس نہ کی گئی۔ جناب خاں صاحب 23سال کے طویل کار آشیاں بندی اور پارٹی کے لعل و جواہر کا اکثر تذکرتے رہتے ہیں۔23ویں یوم تاسیس پر خان صاحب کو ذرا رک کر جائزہ لینا چاہئے تھا کہ آج پارٹی کہاں پہنچی ہے۔ تحریک انصاف کی کابینہ پر ایک نظر ڈالیں تو آپ کو شفقت محمود‘ شاہ محمود قریشی‘ پرویز خٹک‘ نور الحق قادری‘ فہمیدہ مرزا‘ اعظم سواتی‘ غلام سرور خان‘ عمر ایوب خان‘ میاں محمد سومرو‘ اعجاز احمد شاہ‘ زبیدہ جلال ‘ طارق بشیر چیمہ‘ مخدوم خسرو بختیار‘ فواد چودھری وغیرہ نظر آئیں گے جوکولیشن اور دوسری مصلحتوں کا تحفہ ہیں۔ جہاں تک اوریجنل تحریک انصاف کے ممبران کابینہ کا تعلق ہے ان میں عثمان ڈار‘ مراد سعید‘ فیصل واڈا‘ علی امین گنڈا پور اور علی زیدی دکھائی دیں گے۔ جناب خان صاحب کو یوم تاسیس کے موقع پر اپنی کابینہ اور اپنی کارکردگی کا پارٹی کے زعما کے ساتھ مل کر جائزہ لینا چاہیے تھا۔مجموعی طور پر کابینہ میں ہونے والی گزشتہ دنوں کی تبدیلی کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے تھا کہ کیسے آناً فاناً کچھ پیادوں کو ہٹا دیا گیا کچھ کو ری پلیس کر دیا گیا اور کچھ نئے پیادوں کو بساط شطرنج پر پھیلا دیا گیا۔ خان صاحب تو بڑے اقبال آشنا ہیں۔ ایسی صورت حال کی طرف مرشد اقبال کے اشارے کی طرف ان کا دھیان گیا ہو گا ؎ بیچارہ پیادہ تو ہے اک مہرہ ناچیز فرزیں سے بھی پوشیدہ ہے شاطر کا ارادہ شاید خاں صاحب کو اس خسارے کا احساس نہیں جو اسد عمر جیسے مخلص اور بے غرض اوریجنل پارٹی لیڈر کے جانے سے تحریک انصاف کو ہوا ہے۔یوم تاسیس پر خان صاحب کو یہ بھی دیکھنا چاہیے تھا کہ وہ اپنے وعدوں اور اپنے نظریے پر کہاں تک قائم ہیں ۔ خان صاحب نے کہا کہ میں بھیک نہیں لوں گا۔ مگر انہوں نے لی۔ انہوں نے کہاتھا کہ گیس اور بجلی کی قیمتیں نہیں بڑھائوں گا انہوں نے بڑھائیں‘ خان صاحب نے کہا تھا آئی ایم ایف کے پاس نہ جائوں گا مگر وہ گئے اور سر کے بل چل کر گئے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ابھی تک آئی ایم ایف اپنی شرائط سخت سے سخت کرتا چلا جا رہا ہے۔ خان صاحب نے کہا الیکٹ ایبلزکبھی پارٹی میں نہ لوں گا انہوں علی الاعلان لئے خان صاحب نے پچاس لاکھ گھروں اور ایک کروڑ نوکریوں کا وعدہ کیا تھا مگر ابھی تک کچھ نہیں ہوا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ انہوں نے ادارہ جاتی ریفارمز لانے کا کہا تھا اور جوڈیشنری میں انقلابی تبدیلی لانے کا کہا تھا مگر خان صاحب ابھی تک کسی شعبے میں ابتدائی تبدیلی بھی نہیں لا سکے۔ جمہوری ملکوں میں پارٹی قائدین پر غالب ہوتی ہے لہٰذا کسی کو پارٹی منشور اور کمٹمنٹ سے انحراف کرنے کی جرات نہیں ہوتی ۔۔۔۔جمہوری و اخلاقی روایات ہمارے ہاں جب تک شخصی اور موروثی پارٹیاں رہیں گی اس وقت تک جمہوری روایات پروان نہیں چڑھ سکتیں اور اس وقت تک پارٹیوں کے یہی حالات رہیں گے۔