اوون بینٹ جانزپاکستان اور پاکستان کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے معروف برطانوی صحافی ہیں ۔متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان کے مضامین کئی اخباروں میں شائع ہوتے ہیں۔ پاکستان کی سیاست میں فوجی اسٹیبلشمنٹ کے کردار کے ناقد ہیں تو وہیںاپنی کتاب Pakistan: Eye of the Storm میں انہوں نے متعین انداز میں لکھا ہے کہ جب تک پاکستان پر سیاست چند روایتی خاندانوں،بڑے سرمایہ داروںاور جاگیرداری نظام کے ہاتھوں یرغمال رہے گی ، ملک جمہوریت اور معاشی ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکتا۔ اپنے ایک تازہ مضمون میں اوون بینٹ جانز نے جنوبی لندن کی کرائون عدالت میں چلنے والے دو کئی لحاظ سے مماثلت رکھنے والے مقدمات کا احاطہ کیا ہے۔پہلا مقدمہ محمد گوہر خان نامی پاکستانی نژاد برطانوی شہری کے ہالینڈ میں مقیم ایک اور پاکستانی نژادشخص وقاص گورایا کے قتل کی سکیم میں ملوث ہونے سے متعلق ہے۔ گوہر خان کو ہالینڈ سے نکلتے ہوئے ہوائی اڈے پرمشکوک حرکات و سکنات کرتے دیکھا گیا تو مقامی سیکورٹی حکام نے لندن پولیس کو اطلاع دی۔ لندن ائیرپورٹ پر گوہر خان کو حراست میں لیا گیا تو دورانِ تفتیش وقاص گورایا کے قتل کی مبینہ سازش آشکار ہوتی ہے۔ سوشل میڈیا پر سرگرم اس شخص کی واحد’کوالیفیکیشن‘ پاکستان کے سلامتی کے اداروں اور شریف خاندان کا ہدف تنقید رہنے والی اہم شخصیات سے متعلق اپنے اکائونٹ پربد زبانی کرنا اور بے سرو پا غلاظت پھیلانا ہے۔ حیران کن طور پر اس شخص کی جان کو لاحق خطرات سے متعلق کسی اور نے نہیں خود ایف بی آئی نے پیشگی وارننگ جاری کی تھی۔گوہر خان کی لندن پولیس کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد پاکستان میں برطانیہ کے سابق ہائی کمشنرمارک لائل گرانٹ نے ایک خصوصی بیان جاری کیا کہ جس میں برطانوی وزیرِ اعظم سے ’صحافیوں پر غیر قانونی دبائو‘کے معاملے کو نہ صرف قانونی بلکہ سفارتی سطح پر بھی اٹھانے کا مطالبہ کیا گیا۔دوسری طرف کرائون پراسیکیوشن نے معمول سے ہٹ کر اس مقدمے کی جزئیات سے متعلق ایک باقاعدہ پریس کانفرنس کا اہتمام کیا ۔یاد رہے کہ عام حالات میں لندن کے صحافی کرائون پراسیکیوشن کی طرف سے معلومات کی عدم فراہمی کے شاکی رہتے ہیں۔اوون بینٹ جانز کا خیال ہے کہ ریٹائر منٹ سے مسٹر گرانٹ کی اچانک واپسی اور کرائون پراسیکیوشن کی طرف سے ایک غیر معروف شخص سے متعلق مقدمے پر معمول سے ہٹ کر پریس کانفرنس ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں کہ جس کے ذریعے بظاہر پاکستان کو دبائو میں لانا مقصود تھا۔ لندن کی اسی عدالت میں لگ بھگ اسی دوران ایک اور پاکستانی نژاد برطانوی شہری ،ایم کیو ایم کے سابق رہبر الطاف حسین پر لندن میں بیٹھ کر پاکستان میںمتشدد کارروائیوں کی حوصلہ افزائی کرنے کے الزام میں سماعت ہوئی۔ تاہم اس معاملے پرکسی اہم برطانوی شخصیت کی طرف سے کوئی غیر معمولی بیان سامنے نہیں آتا۔ کرائون پراسیکیوشن بھی اپنے خول میں واپس لوٹ کر معمول کی خاموشی اختیار کر لیتی ہے۔ تشدد پر اکسانے والی تقریروں کا ریکارڈ شدہ مواد موجود ہونے کے باوجود ملزم کو باعزت طور پر بری کر دیا جاتا ہے۔ اوون بینٹ جانز کا خیال ہے کہ کئی عشروں سے برطانوی حکام اور الطاف حسین کے درمیان ’ سفارتی اور انٹیلی جنس سطح کے روابط‘ استوار رہے ہیں۔ چنانچہ گزشتہ کئی عشروں سے پاکستانی حکام اور حال ہی میں خود وزیرِ اعظم عمران خان کی طرف سے اپنے برطانوی ہم منصب کو الطاف حسین کے خلاف کارروائی کے لئے دی گئی درخواستوں کو ہمیشہ نظر انداز کیاجاتا رہا ہے۔ ہالینڈ میں مقیم معمولی فہم و فراست کے مالک وقاص گورایا کا معاملہ مگر دلچسپ ہے۔ سال 2003ء کے آس پاس پاکستان اور اس کے سلامتی کے اداروں کو خطے میں مغربی مفادات کے حصول کی راہ میں رکاوٹ جان کرہر دو کے خلاف جو معاندانہ مگر منظم نیٹ ورک قائم کیاگیا تھا، وقاص گورایا جیسے لا تعداد کل پرزے اس میں کا رفرما ہیں۔ اقتدار کے حصول یا اقتدار میں واپسی کے لئے بے چین سیاستدان ،مخصوص میڈیا ہائوسز کے صحافی نما مالکان، انصاف کے سیکٹر میں خاص چھاپ رکھنے والے نام، شخصی آزادیوں کے نام پر غیر ملکی فنڈنگ سمیٹنے والے درپردہ ہاتھ ،یونیورسٹیوں میںاساتذہ کہلائے جانے والے مغرب زدہ لبرلز ، متروک بائیں بازو کے متکبر چڑچڑے دانشور،مغربی سفارت کاروں سے رات کے اندھیروںمیں چوری چھپے ملاقاتیں رچانے والے کٹھ ملّا، گزرتے عشروں ادراک کر چکے ہیں کہ مغرب سے مخاصمت درست نہیں۔ ہمارے وزیرِ اعظم مگر اب بھی یہ بات سمجھنے کو تیار نہیں۔ چنانچہ پاکستان کے اندر اور پاکستان کے باہراس نیٹ ورک کے ہاتھوں جس بے سرو پا نفرت ، غلاظت اور زہر انگیزی کا نشانہ ہمارے سلامتی کے ادارے بنتے ہیں، خود وہ اور ان کاخاندان بھی اس سے محفوظ نہیں۔سوشل میڈیا پر درجنوں معروف اور سینکڑوں نا معلوم اکائونٹس کسی نا کسی کی ایماء پر متحرک ہیں۔ حال ہی میں لاہور سے ایک ایسا ہی غیر معروف اور نیم خواندہ شخص ریاستی اداروںاور ان سے وابستہ اہم شخصیات کے خلاف مبینہ طور پر بد زبانی اور بہتان تراشی کی بناء پر گرفتار کیا گیاتو سوشل میڈیا ٹیم کی سربراہی اور اپنے ٹویٹر ہینڈل کے ذریعے شہرت پانے والی معروف خاتون ذاتی طور پر اس کے دفاع میں اترآئیں۔ وقاص گورایا ایک غیر معروف اور بظاہر غیر اہم شخص ہے۔ تاہم ایک خیال ہے کہ گوہرخان کے خلاف مقدمے کے دوران لئے گئے غیر معمولی اقدامات کے ذریعے پاکستان کوایک پیغام دینا مقصود تھا۔ پیغام رسانی کے ذرائع مختلف ہو سکتے ہیں، تاہم پیغام وہی ہے جو ایف اے ٹی ایف کے حالیہ اجلاس کے بعد پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھ کر دیا گیا ہے۔ دبائو ابھی اور صورتوںمیںبھی آئے گاکہ معاشی اور اقتصادی ہتھکنڈے جن میں سرِ فہرست ہوں گے۔تاہم ایک اندازہ یہ بھی ہے کہ ضرور مغرب کو بھی اس امر کا احساس ہوگا کہ سرد جنگ کے عشروں کے برعکس دورِ حاضر میں دنیا کو جمہوریت ، انسانی حقوق اور آزاد منڈیوں کے نام پر بے وقوف بنانااب اس قدر آسان نہیں رہا۔چنانچہ یوکرین پر روس کی جارحیت کے خلاف عالمی ردِ عمل میں وہ شدت نظر نہیں آرہی جو عشروں پہلے افغانستان میں در اندازی کے بعد دیکھنے کو ملی تھی۔ ورلڈ بنک ، آئی ایم ایف اور دیگر مغربی اداروں کا خوف نہ ہو تو صورت حال مغربی دنیا کے لئے اور بھی حیران کُن ہوسکتی ہے۔