تاریخ کیا ہے اور روایت کسے کہتے ہیں‘ اہل علم جانیں لیکن عامیوں کو اتنا پتہ ہے کہ روایتیں اکٹھی ہو کر ہی تاریخ بن جاتی ہیں تو ایک ایسی ہی روایت پیش ہے جو ہر خاص تو نہیں لیکن ہر عام کی زبان زد ہے۔ روایت میں کتنی صداقت ہے یا کتنی کذابت‘ یہ فیصلہ تاریخ کرے گی یعنی جب کئی روایتیں جڑ جائیں گی تب! روایت یوں ہے کہ چھ بجے گنتی شروع ہوئی اور نتیجے قومی مفاد کے برخلاف آنے لگے ایک دو گھنٹے تو یونہی چلتا رہا پھر ’’ھالٹ‘‘ہو گیا۔ روایت کہاں کی ہے اسے چھوڑیے۔ کوئی بھی ملک ہو سکتا ہے۔ مثلاً سوازی لینڈ‘ نیو کیلے ڈوبنا‘ گنی بسائو ’’بوٹسوانا ‘ تاجکستان، کوسٹاریکا۔ اپریشن تو کامیاب رہا لیکن تولیے یہاں وہاں جہاں تہاں رہ گئے۔ کسی گٹر سے تھیلا برآمد ہوا تو کسی کچرا کنڈی سے پرچیوں کے ڈھیر۔ ایک تھَدّا ووٹوں کا ایک اینکر پرسن کے ہتھے چڑھ گیا یا شاید کسی نے چڑھا دیا اسے اپنے پروگرام کا مسالہ مل گیا۔ ٭٭٭٭٭ انتخابات کے بعد مزے مزے کے بیانات آئے ان میں سے کچھ نہایت ہی مزے کے تھے۔ بہتوں کو مزا آیا۔ کچھ بد مزہ بھی ہوئے لیکن رہبر ترقی و کمال کراچی والے سب پر بازی لے گئے۔ فرمایا ہم سے چھ سیٹوں کا وعدہ کیا گیا تھا کچھ دن پہلے ایک بات کی‘ اس پر وہ لوگ ناراض ہو گئے اور چھ کیا ایک بھی سیٹ نہیں دی۔ موصوف کا تعلق کراچی سے ہے، جہاں ان کی لانڈری مطلوبہ خدمات سرانجام دینے کے بعد اب بیٹھ گئی ہے۔ ان کا یہ گماں بدگمانی ہے کہ کسی بات پر ناراض ہو کر وعدہ خلافی کی گئی۔ وعدے وعید تو اوروں سے بھی کئے گئے تھے‘ چودھری جانثار سے ‘ لال قلعے کے فاتح سے، اور دیگر سے‘ کیا سب سے ناراضی ہو گئی تھی؟ جی نہیں۔ ناراضی کسی سے نہیں‘ عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا۔ جو دریا چڑھانا تھا وہ چڑھ آیا۔ آپ کے ذمے ڈول ڈالاتھا۔ اس سے زیادہ آپ کا کام تھانہ افادیت۔ بہرحال رنجیدہ مت ہوئیے۔ وعدے شاید اگلی بار وفا ہو ہی جائیں کون جانتا ہے۔ ٭٭٭٭٭ کراچی میں چڑھے دریا نے 14سیٹیں لیں۔ اس بارے میں روایت یہ ہے کہ گنتی سو سے اوپر نہ ہوئی تو دریا بان دل گرفتہ ہو گیا۔ فون اٹھایا اور فریاد کی‘ وکٹری تقریر نہ کرنے کی دھمکی بھی۔ چنانچہ طے شدہ چار سیٹوں میں خاطر خواہ اضافہ کیا گیا، یعنی 4کے بائیں طرف عدد 1لگا دیا گیا یوں چودہ کی گنتی آ گئی اور اسی میں وہ چھ بھی شامل تھیں جو پہلے رہبر ترقی و کمال کو دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ ٭٭٭٭٭ وکٹری تقریر بعدازاں ہو گئی، سب نے سن لی، بھارت پالیسی پر خوب واہ واہ بھی ہوئی۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی واہ کی۔ سندھ میں صادق و امین حضرات کے اتحاد جی ڈی اے نے بھی دھاندلی کا شکوہ کیا ہے اور سڑکیں بلاک کرنے کی دھمکی دی ہے۔ جی ڈی اے محکمہ زراعت کی صوبائی فرنچائز ہے‘ بہت سے لوگوں کو حیرت ہوئی کہ وہ کیسے ہار گیا۔ بہت سے لوگوں کی نسبت زیادہ حیرت خود جی ڈی اے کو ہوئی۔ سندھ کا پریس گواہ ہے‘ جی ڈی اے کا ہر دوسرا لیڈر یہ بتاتے نہیں تھکتا تھا کہ سندھ میں ہماری حکومت آ رہی ہے‘ ہمیں بتا دیا گیا ہے تمہاری اکثریت ہو گی، چنانچہ 25کی شام سارے موعودہ وزیر‘ وزیر اعلیٰ سمیت بن ٹھن کر آتش بازی کے ڈھیر پر مٹھائیوں کے ٹوکرے رکھ کر تنے بیٹھے تھے کہ ابتدائی گنتی کے کچھ دیر بعد یکا یک گنتی کے نتائج آنا بند ہو گئے، یعنی وہی ماجرا جو پنجاب میں خاص طور سے ہوا اور پھر چراغوں کی روشنی دھواں بن کر اڑنے لگی۔ آخر ماجرا کیا ہوا‘ پہلے تو ان اصحاب کو سمجھ ہی نہیں آیا۔ پھر کسی نے اندر کی اطلاع دی تو جھنجھلا کر رہ گئے۔ سندھ کے ایک سینئر صحافی سہیل سانگی کے بقول جی ڈی اے کے رہنما ایاز پلیجو تو گویا پھٹ ہی پڑے۔ فرمایا ’’جی ڈی اے کے ساتھ ایک بار پھر ہاتھ ہو گیا ہے۔ نواز شریف کی لندن سے واپسی پر صورتحال بدل گئی چنانچہ بغیر دستخط کے این آر او ہوا اور پیپلز پارٹی کو سندھ میں جیتنے کی اجازت مل گئی‘‘ یعنی پارٹی جیت جانے کے قابل تو تھی لیکن اجازت نہیں مل رہی تھی۔ نواز شریف کی واپسی نے اوریجنل پلان کو ایک طرف رکھنے اور متبادل پلان افراتفری کے عالم میں لانے پر مجبور کر دیا۔ تجزیہ نگار کے مطابق محکمہ زراعت دو دو جماعتوں سے نہیں لڑ سکتا تھا چنانچہ پیپلز پارٹی کی قسمت ناش ہونے سے بچ گئی۔ یہ تو جو ہوا سب کو پتہ ہے لیکن جی ڈی اے کی فریاد اس کے دعوئوں سے متضاد ہے۔ جی ڈی اے کے جلسوںمیں خطابات ہوتے تھے کہ ہم حب الوطنی پر سب کچھ قربان کر دیں گے۔ اب حب الوطنی ہی کے لیے تو یہ قربانی ان سے لی گئی ہے پھر صدمہ کیوں ہے یعنی آپ کو لیلائے حب الوطنی کا مجنوں ہونے کا دعویٰ تو ہے لیکن یہ دعویٰ چوری کھانے سے مشروط ہے کیوں‘ کہیں غلط تو نہیں کہہ دیا؟ اس زمینی حقیقت کو مان ہی لیجیے صاحب، کہ فی الوقت چوری کا کوٹہ عمران خاں کے لیے وقف ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی تو ہے کہ یار زندہ ‘ چُوری باقی اگلی بار سہی! ٭٭٭٭٭ جیسا کہ اس کالم میں پیش گوئی کی گئی تھی الحمد للہ دو اہم قومی مسائل تا اطلاع ثانی ’’حل‘‘ ہو گئے۔ ایک کالا باغ ڈیم کا‘ دوسرا جنوبی صوبے کا۔ کالا باغ ڈیم کے لیے مہم نہیں سونامی چلا اور جنوبی صوبے کے لیے سونامی پلس۔ دعوے، وعدے ‘ عزم صمیم، پکے ارادے، اب تو بنا کر ہی رہیں گے۔ لیکن اسی کالم میں کوئی زائچہ بنائے بغیر صاف الفاظ میں پیش گوئی کر دی گئی تھی کہ انتخابات کا ’’مثبت‘‘ نتیجہ برآمد ہوتے ہی یہ دونوں مسائل اس طرح غائب ہو جائیں گے جس طرح تحریک انصاف کی ناپسندیدہ مخلوق کے سر سے سینگ۔ تو دیکھ لیجیے جناب ایسا ہوا کہ نہیں۔ اب پانچ سال تو سکون اور شانتی سے گزریں گے۔ بھانت بھانت کی سمع خراشی تا انتخابات آئندہ معرض التوا میں چلی گئی۔ اگلے انتخابات سے چند ماہ پہلے یہ شور محشر پھر اٹھے گا اور بعداز انتخابات اگلے پانچ سال کے لیے پھر آرام گاہ میں آرام فرمائے گا۔ اسی چکر پہ ہے موقوف سیاسی رونق!