یکم مئی ،مزدوروں کا عالمی دن شکاگو کے مزدوروں کی یاد میں منایا جاتا ہے مگر شکاگو اور اُس سے ملتے جلتے واقعات ہمارے ہاں بھی آئے روز ہوتے رہتے ہیں۔ کہنے کو تو دنیا نے بہت ترقی کر لی اور انسان چاند پر پہنچ گیا مگر ہمارے ہاں غریب کی حالت آج تک نہیں بدلی۔ یہ بھی دیکھئے کہ انیسویں صدی میں یورپ میں انڈسٹری کا پہیہ رواں دواں تھا جبکہ ہمارے ہاں آج اکیسویں صدی میں بھی صنعتی ترقی عنقا ہے۔ معاشی غلامی سے نکلنے کا واحد راستہ صنعتی ترقی ، آجر اور مزدور کی بہتری میں مضمر ہے۔ پاکستان اور ہندوستان واحد ملک ہیں جہاں مزدور کی تنخواہ آج بھی سب سے کم ہے۔ ایک سروے کے مطابق برطانیہ میں مزدور کی کم از کم ماہانہ تنخواہ 19 سو ڈالر ، اسپین میں 950 یورو ، بلجیم 1625 یورو ، ہانگ کانگ میں 700 امریکی ڈالر، جرمنی میں 1890ڈالر، ترکی میں 525ڈالر ، فرانس میں1539ڈالر، جاپان میں1527 امریکی ڈالر، آسٹریلیا میں 24 سو ڈالر ہے جبکہ پاکستان میں مزدور کی تنخواہ محض 80 ڈالر ماہانہ مقرر ہے۔ سعودی عرب میں مزدور کی تنخواہ میں امتیازی سلوک اس طرح ہے کہ بیرون ممالک سے آنے والے مزدور کی کم از کم تنخواہ 500ریال جبکہ مقامی سعودی مزدور کی تنخواہ 4 ہزار سعودی ریال مقرر ہے، مزدوروں کے عالمی دن کے موقع پر اس طرح کے امتیازات کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ مزدوروں کا مسئلہ پوری دنیا کے ساتھ جڑا ہوا ہے، آج روٹی ، کپڑا ، مکان کے نعرے نے بھی اپنا مفہوم تبدیل کر لیا ہے ، اب فرد کی روٹی کی بجائے محروم خطے کے تمام لوگوں کیلئے غربت و پسماندگی کے خاتمے کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ وسیب میں غربت و بے روزگاری کی حالت دن بدن بگڑتی جا رہی ہے ۔ حکمرانوں کے اقتدار میں آنے سے پہلے دعوے کیا تھے ، ہوا کیا ہے؟ مہنگائی اور بدامنی نے ستیا ناس کر دیا ہے ، وسیب کا مزدور اور عام آدمی سب سے زیادہ متاثر ہے ۔ سابق دور حکومت میں مختلف اداروں سے ملازمین کی سب سے زیادہ بر طرفیاں ہوئیں ، مزدور اور دیہاڑی دار پہلے ہی تباہ تھے ،رہی سہی کسر موجودہ دور کی بدترین مہنگائی نے پوری کر دی ۔ علامہ اقبال نے خوب کہا : یوں توں قادر مطلق ہے مگر تیرے جہاں میں ہیں تلخ بہت بندئہ مزدور کے اوقات یہ ٹھیک ہے کہ علامہ اقبال نے قادر مطلق سے بندہ مزدور کے حالات کی تنگدستی کا شکوہ کر دیا اور بتا دیا کہ ’’ ہیں تلخ بہت بندئہ مزدور کے اوقات ‘‘ لیکن اب بات آگے کی سوچنی ہے کہ بندئہ مزدور کی اوقات اور اس کے حالات کیسے تبدیل کئے جا سکتے ہیں؟، اب غریب مزدوروں کے ساتھ ترقی یافتہ ممالک کو ترقی پذیر ممالک کے بارے میں بھی سوچنا ہوگا۔ غربت اور امارت کے درمیان جو فاصلے بڑ ھ رہے ہیں وہ بہت بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہو سکتے ہیں ، شاید اس کا ادراک حکمرانوں کو نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ غربت کے خاتمے کے حوالے سے باتیں نہیں بلکہ عملی اقدامات کئے جائیں قبل اس کے کہ غربت کے مارے لوگ خودکشیاں چھوڑ کر خود کش نہ بن جائیں ۔ پاکستان کے کسی علاقے میں صورت حال قابل رشک نہیں ۔ معاشی نا ہمواری، بے انصافی، عدم مساوات ، تنگدستی، غربت اور بے روزگاری کے باعث لوگ اپنے گھروں سے ہجرت پر مجبور ہیں۔ خطے میں بیروزگاری ہے اور مزدوری کے لیے لوگ کراچی اور دیگر بڑے شہروں کا رُخ کررہے ہیں ، کراچی میں آئے روز وسیب کے مزدور ظلم و ستم کا شکار ہوتے ہیں ۔ برسر اقتدار آنے کے بعد سیاستدانوں کے حالات میں تو تبدیلی آ جاتی ہے مگر غریب پہلے سے بڑھ کر مشکلات کا شکار ہو جاتا ہے۔ تحریک انصاف کے دور میں بھی غریب کو انصاف نہ مل سکا ،موجودہ دور میں صورتحال اورگھمبیر ہو چکی ہے ، اُردو کاایک شعر ہے کہ ’’ظلم بچے جن رہا ہے کوچہ و بازار میں ، انصاف کو بھی صاحبِ اولاد ہونا چاہیے۔ کراچی میں خالہ کا مقدس رشتہ ’’ماسی ‘‘نوکرانی کے معنی میں تبدیل ہو چکا ہے ، کراچی کے بلڈرز کا کاروبار اور تمام ٹیکسٹائل انڈسٹری سرائیکی پڑھا لکھا مزدور چلا رہا ہے۔ سرائیکی وسیب میں یوریا کھاد کے کارخانے موت بانٹ رہے ہیں ، مظفر گڑھ میں توانائی انڈسٹری بھی اس میں شامل ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ وسیب کے لوگوں کو ملازمتیں دی جائیں ، سی ایس ایس میں کوٹہ رکھا جائے ، فوج میں سرائیکی رجمنٹ بنائی جائے ، عدلیہ، فارن سروس اور تمام محکموں و کارپوریشنوں میں وسیب کا آبادی کے مطابق کوٹہ مختص کیا جائے۔ چائلڈ لیبر، بھٹہ مزدوروں کے مسئلے حل کرنے اور محکموں سے ٹھیکیداری و اجارہ داری سسٹم کو ختم ہونا چاہئے۔ وسیب میں ٹیکس فری انڈسٹریل سٹیٹ زون قائم کیا جائے ۔ انڈسٹری میں مقامی لوگوں کی 80 فیصد ملازمتوں کا حق تسلیم کر کے مزدوروں کی تنخواہ ایک تولہ سونے کے برابر کی جائے ،یہ ایسے مطالبات ہیں جن پر صرف غور ہی نہیں عمل کی بھی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں میں گھروں میں کام کرنے والی خواتین ، کھیتوں میں کام کرنے والے دیہی مزدور اور غیر صنعتی لیبر کے قوانین آج تک نہیں بن سکے ۔ بھٹو دور میں مزدوروں کیلئے جو قوانین بنے ضیا الحق نے انہیں بے اثرا ور موجودہ حکمرانوں نے ان میں دم خم ہی نہیں رہنے دیا۔ اگر مزدور کیلئے بنائے گئے پہلے والے قوانین پر بھی عمل ہو جائے تو غنیمت ہے۔ آج مزدوروں کی حالت شکاگو کے مزدور سے بھی بد تر ہے۔ 1886ء میں شکاگو کے مزدوروں نے 12 اور 16 گھنٹے لیبر کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تھا ، آج دیہات کا مزدور 24 گھنٹے کا ملازم ہے اور تنخواہ نہایت قلیل، حالانکہ تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو مزدوروں کی تنخواہ ایک تولہ سونے کے برابر ہمیشہ رہی ۔ ماحولیاتی آلودگی اور ہیلتھ سیفٹی نام کی کوئی چیز موجود نہیں، مزدوروں کی اکثریت مختلف امراض کا شکار ہے،علاج کا انتظام نہیں ، ڈاکٹر لوٹ رہے ہیں۔اس بات کو دیکھنا ہوگا ۔ آج مہنگائی کی اس بد ترین دور میں انسان کے ساتھ انسانیت کو بچانے کی بھی ضرورت ہے ۔