گزشتہ سال جون میں جب وفاقی بجٹ پیش کیا گیا تو وفاقی حکومت نے ٹیکسوں کی وصولی کا ہدف ساڑھے پانچ ہزار ارب روپے سے زیادہ مقرر کیا تھا۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے سات ماہ میں جو ٹیکس اکٹھا ہوا ہے وہ ہدف کے مقابلہ میں تقریبا چار سو ارب روپے کم ہے۔ تخمینہ یہ ہے کہ سال کے اختتام پر مجموعی طور پر شائد پونے پانچ ہزار ارب روپے جمع ہوپائیں گے۔ افواہیں گردش کررہی ہیں کہ حکومت کچھ ٹیکسوں میں اضافہ کرنے والی ہے یا نئے ٹیکس لگانے والی ہے تاکہ کم سے کم پانچ ہزار ارب روپے تو وصول ہوجائیں۔ مدّتوں سے ہر برس ایسا ہی ہوتا ہے کہ حکومت ٹیکسوں کی وصولی کا ٹارگٹ پورا نہیں کر پاتی۔جب عمران خان اپوزیشن میں تھے تو اس وقت کی ن لیگی حکومت نے چار ہزار ارب روپے ٹیکس وصول کیا تھا۔ تب عمران خان دعوے کیا کرتے تھے کہ و ہ حکومت میں آگئے تو ایک سال میں آٹھ ہزارارب روپے وصول کرکے دکھائیں گے۔ انکی حکومت کو دوسرا سال چل رہا ہے اب تک تو وہ ایسا نہیں کرسکے۔ صورتحال اتنی خراب ہے کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے چئیرمین شبّر زیدی مشیر خزانہ سے اختلافات کے باعث غیرمعینہ رخصت پر جاچکے ہیں۔ ٹیکس وصولی میں ناکامی کی ذمّہ داری ایک پارٹی یا شخص کی نہیں ‘ ہماری تمام حکمران اشرافیہ اس صورتحال کی قصوروار ہے۔ ملک میں چالیس لاکھ دولت مند لوگ ایسے ہیں جو ٹیکس نہیں دیتے۔ اگر بڑے زمینداروں‘ تاجروں‘ دکانداروں‘ پیشہ ور ماہرین سے پُورا پُوراٹیکس وصول کیا جائے تو وفاقی حکومت کی ٹیکس آمدن دوگنا ہوسکتی ہے لیکن جو بھی حکومت آتی ہے وہ صرف غریبوں کا خون نچوڑتی ہے‘ امیروں کا پیٹ بھرتی ہے۔ پاکستان میں افسر شاہی اور سیاسی اشرافیہ کو جو مختلف قسم کی ٹیکس مراعات اورٹیکسوں سے استثنا حاصل ہیں انکی سالانہ مالیت چھ سو ارب روپے سے کم نہیں۔ پاکستان کے آئین کے مطابق وفاقی حکومت زمین پر ٹیکس نہیں لگا سکتی۔ جو بڑے بڑے زمیندار سینکڑوں‘ ہزاروںایکڑ زرعی اراضی کے مالک ہیں‘ جن کو باغوںسے کروڑوں روپے آمدن ہوتی ہے‘ دستور کے تحت وفاقی حکومت اُن سے انکم ٹیکس نہیں لے سکتی۔ حالانکہ پچیس ایکڑ نہری اور پچاس ایکڑ بارانی زرعی اراضی سے زیادہ زمین کے جو مالک ہیں ان کی اتنی آمدن ہوتی ہے کہ ان سے انکم ٹیکس وصول کیا جائے ۔ زمیندار توصوبائی حکومتوں کو جتنا مالیانہ بنتا ہے اس کا ایک تہائی بھی نہیں دیتے‘پٹواریوں سے مل کر‘ رشوت دیکرفصل کی گرداوری‘تخمینہ ایسے کرواتے ہیں کہ بہت کم مالیانہ دینا پڑے۔ زمینداروں سے جو آبیانہ وصول کیا جاتا ہے وہ اتنا کم ہے کہ اس رقم سے محکمہ انہار کے اخراجا ت بھی پورے نہیں ہوسکتے۔نہروں ‘ بیراجوںکی مرمت‘ دیکھ بھال‘عملہ کی تنخواہیں اور ترقیاتی کام کروانے کو حکومت ہر سال عالمی اداروں جیسے عالمی بنک وغیرہ سے قرضے لیتی ہے۔اگر اس ملک میں ٹیکس وصولی کا نظام منصفانہ بنانا ہے تو بڑے زمینداروں پر وفاقی حکومت کو انکم ٹیکس لگانا پڑے گا‘ اس کے لیے آئین میں ترمیم کرنا پڑے گی۔ ہمارے ملک میں پرچون دُکانوں کی تعداد کا تخمینہ تقریباً پچیس لاکھ ہے۔ماہرینِ معیشت کاخیال ہے کہ ملک میں پرچون کاروبار کا حجم دو سو ارب ڈالر ہے۔دُکانداروں کی اکثریت بھی انکم ٹیکس نہیں دیتی۔ جو ٹیکس دیتے ہیںوہ بھی جتنا جائز ٹیکس بنتا ہے اس کا ایک چوتھائی یا اس سے بھی کم۔ تاجروں کا سیاسی اثر و رسوخ تالہ بندی‘ ہڑتال کی طاقت کیوجہ سے ہے۔ جو بھی حکومت ان سے ٹیکس وصولی کے لیے اقدامات کرتی ہے وہ ہڑتالیں کردیتے ہیں‘ ملک میں چیزوں کی قلت پیدا ہوجاتی ہے‘ چاروں طرف ایسا شور مچتا ہے کہ حکومت ڈر کر اپنے اقدامات واپس لینے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ہمارے دولت مند طبقہ کے پاس ٹیکس چوری کا جو پیسہ جمع ہوتا ہے اسے معیشت کا حصّہ بنانے کو حکومتیں بار بار ٹیکس معافی کی اسکیمیں لاتی ہیں۔ دوہزار اٹھارہ اور دو ہزار انیس میںکالا دھن سفید کرنے کی خاطر دو ٹیکس معافی اسکیمیں لائی گئیں۔ ان دونوں اسکیموں میں مجموعی طور پرساڑھے چورانوے ارب روپے ظاہر کیے گئے۔ ان پر حکومت کوتقریباً پانچ فیصد کے حساب سے صرف ساڑھے چار ارب روپے کا معمولی سا ٹیکس وصول ہوا۔ اگر فیڈرل بورڈ آف ریونیو اس دولت کو دریافت کرکے اس پر نارمل طریقہ سے ٹیکس وصول کرتا توحکومت کو بیس گنا زیادہ رقم ملتی۔ مشکل یہ ہے کہ حکومت امیروں پر دولت ٹیکس یا ویلتھ ٹیکس لگانے پر تیار نہیں جو ماضی میں عائد ہوا کرتا تھا لیکن بعد میںختم کردیا گیا تھا۔ اگر دو کروڑ روپے سے زیادہ کی دولت پراڑھائی فیصد سالانہ ٹیکس لگادیا جائے تو حکومت کو اچھی خاصی آمدن ہوسکتی ہے۔ حکومت مزدوروں ‘ نچلے متوسط طبقہ کے لوگوں کے موبائل فون کے استعمال پر ایڈوانس انکم ٹیکس کاٹ سکتی ہے تو شہروں میں دس مرلہ سے بڑے مکانوں کے مالکان پرجائداد ٹیکس کے ساتھ ساتھ سالانہ ایڈوانس انکم ٹیکس کیوں نہیں لگاسکتی؟ جب کوئی آدمی انکم ٹیکس ریٹرن جمع کرائے گا تو یہ پیشگی انکم ٹیکس اُسے واپس مل جائے گا۔اسطرح پیشہ ور ماہرین‘ کاروباری لوگ خود بخودٹیکس جال میں آجائیں گے۔حکومت قانون بنائے کہ ہروہ شخص جو گاڑی کا مالک ہے اس کے لیے انکم ٹیکس ریٹرن جمع کرانا لازم ہوگا۔ اگر ایک شخص کار کے اخراجات برداشت کرسکتا ہے تو وہ انکم ٹیکس بھی ادا کرسکتا ہے۔ اسی طرح کئی ملکوں میںامیر افراد پر وراثتی ٹیکس عائد ہے۔ہمیں بھی ایسا ٹیکس لگانا چاہیے۔جو لوگ پانچ کروڑ سے زیادہ مالیت کے اثاثے چھوڑ کرفوت ہوں اُن کی مجموعی مالیت کا دس پندرہ فیصدریاست وصول کرے‘ اسکے بعد باقی دولت ورثاء میں تقسیم کی جائے۔جو شخص پاکستان میں دولت بنا رہا ہے اس میں ریاست کا بھی حصّہ ہے۔