گلگت بلتستان انتخابات میں اہم سوال یہ نہیں کہ کون جیتا۔ اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے طے کر رکھا ہے ہم نے انتخابات اسی طرح ’’آزادانہ اور منصفانہ ‘‘ انداز سے کرانے ہیں یا ہم انتخابی اصلاحات کا بھاری پتھر بھی اٹھا پائیں گے۔ مرحوم ضیاء الحق صاحب ، جب ریفرنڈم میں تاریخی کامیابی حاصل کر چکے تو ایک محفل میں انہوں نے شرکاء سے گواہی طلب فرمائی کہ کیا یہ انتخاب آزادانہ اور منصفانہ تھا۔عبد القادر حسن بھی موجود تھے۔ ضیاء الحق صاحب نے ان سے براہ راست مخاطب ہو کر یہی سوال پوچھا تو عبد القادر حسن نے جواب دیا : بالکل جناب صدر یہ انتخاب آزادانہ اور منصفانہ تھا۔میں نے خود دیکھا کہ دن دس بجے تک یہ منصفانہ تھا اور اس کے بعد آزادانہ تھا۔مجھے یاد ہے یہ انتخاب اتنا آزادنہ تھا کہ گائوں میں کرکٹ کھیلتے ہم بچوں نے بھی ووٹ ڈالے تھے اور بار بار ڈالے تھے۔جماعت اسلامی کی برکتوں سے باقی کا دن میچ کھیلتے بھی مرد مومن مرد حق کے نعرے لگائے جاتے رہے۔یہ کسی ایک انتخاب کی کہانی نہیں ہے ، پاکستان کا ہر انتخاب آزادانہ اور منصفانہ ہوتا ہے۔آزادی کا پرندہ جس جماعت کی ٹہنی پر بیٹھ کر چہچہانے لگے اس کے نزدیک یہ منصفانہ انتخاب قرار پاتا ہے اور دوسرا فریق دہائی دیتا ہے کہ یہ تو انتہائی آزادنہ انتخاب تھا۔ شفاف انتخابات کا نعرہ تحریک انصاف کے بانکپن کی گم گشتہ نشانیوں میں سے ایک تھا۔اس کے پاس موقع تھا کہ انتخابی اصلاحات کا کوئی ایجنڈا اس کے ذہن میں ہے تو ان انتخابات میں اس کو عملی شکل دے کر اس کا جائزہ لے لے۔اس نے یہ موقع گنوا دیا۔ معلوم یہ ہوا کہ انتخابی اصلاحات کے باب میں بھی اس کا دامن قومی خزانے کی طرح خالی ہے اور اس کے پاس چند اقوال زریں کے علاوہ کچھ نہیں۔اصلاحات تو کیا ، وہ کوئی ایسی اچھی روایات بھی نہ چھوڑ سکی کہ آئندہ کے لیے مثال بن جاتی کہ جب تحریک انصاف کی حکومت تھی تو اس نے گلگت بلتستان کے انتخاب میں اپنے شاندار رویے سے یہ مثالیں قائم کی تھیں۔ یہ انتخاب ہر لحاظ سے ویسا ہی تھا جیسے پہلے ہوتا آیا۔نہ انتخابی عمل میں کوئی انفرادیت تھی نہ اہل اقتدار میں۔ حسب توقع جب انتخابات ہو چکے تو جناب وزیر اعظم نے اقوال زریں سے قوم کو خوش کر دیا۔ الیکٹرانک ووٹوں کا نظام لائیں گے ، یہ کر دیں گے اور ساتھ ہی ساتھ وہ بھی کر دیں گے۔قبیلے میں نئی رسم یہ ہے کہ تاج محل اب یہاں دعووں سے ہی بنتے ہیں۔ اس لیے واہ واہ مرحبا کی آوازیں اٹھیں کہ آفریں ہے صاحب ، یہ تو پہلی مرتبہ ہو گا۔ کوئی گستاخ ایسا نہ تھا جو سوال کر پاتا کہ جناب محترم آپ کو اقتدار پر جلوہ افروز ہوئے دو سال سے اوپر ہو چلے ہیں ، یہ تو بتائیے کہ ان دو سالوں میں انتخابی اصلاحات کے لیے آپ نے کیا کیا ہے؟کوئی قانون سازی کی ہے؟ قومی اسمبلی یا سینیٹ میں کوئی بل لائے ہیں؟ الیکشن کمیشن سے کوئی با معنی اور وسیع تر مشاورت کی ہے؟ کوئی لائحہ عمل آپ کے پاس ہے یا یہ معرکہ بھی اقوال زریں کے تیروں سے جیتا جائے گا۔ عمران خان نے جو تحریک چلائی وہ بھی دھاندلی کے خلاف تھی اور پی ڈی ایم کی تحریک کا مرکزی نکتہ بھی دھاندلی ہے۔ کئی سال ہو گئے اس عنوان سے ملک میں ہیجان کی کیفیت ہے۔دنیا اپنی تعمیر و ترقی میں مصروف ہے ، خطے کی صورت حال بدل رہی ہے ، نئی صف بندی ہو رہی ہے ، امکانات اور خطرات کی نئی دنیائیں آباد ہو رہی ہیں لیکن ہم داخلی تصادم اور تنائو کی کیفیت سے نکل ہی نہیں پا رہے۔ اور اس تنائو کی وجہ اس کے سوا کیا ہے کہ ہمارے پاس انتخابی اصلاحات کا ایسا کوئی پروگرام موجود نہیں جو انتخابات کے عمل کو معتبر بنا سکے۔چنانچہ اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ اگلے عام انتخابات بھی اسی بحران کو جنم دیں جو گذشتہ انتخابات کے نتیجے میں پیدا ہوا۔ہارنے والا گروہ دھاندلی کے عنوان کے تحت ایک بار پھر سڑکوں پر ہے۔ اہل اقتدار ہوں یا حزب اختلاف ، کسی کے پاس انتخابی اصلاحات کا کوئی پروگرام اور کوئی لائحہ عمل موجود نہیں۔اب سوال یہ ہے کہ قومی خزانے سے بھاری رقم اس انتخابی مشق میں کیوں ضائع کی جائے جس کے نتائج کے تنازعہ پر ملک ہیجان سے دوچار کر دیا جاتا ہو۔انتخابی اصلاحات کے با معنی عمل کے بغیر انتخابات کی ضرورت کیا ہے اور اس کی افادیت کیا ہے؟کیا یہ قوم اربوں روپے صرف اس لیے برباد کرے کہ شکست خوردہ فریق ایک نئے بحران کو پرچم بنا لے؟ عمران خان نے پانچ حلقوں سے انتخاب لڑا۔ ایک جیت کر چار چھوڑ دیے۔ جو چھوڑ دیے وہاں ضمنی انتخابات ہوئے۔ کیا عمران خان نے کبھی سوچا یہ ضمنی انتخابات قومی خزانے کو کتنے میں پڑے؟ کیا کوئی قانون سازی نہیں ہونی چاہیے کہ شکست کے خوف سے کوئی بھی سیاسی رہنما ایک سے زیادہ حلقے سے لڑے گا تو ضمنی انتخابات کا خرچہ اسی کی جماعت سے وصول کیا جائے گا؟ عمران خان ، نواز شریف یا آصف زرداری کو شکست کا خوف ہے اور وہ ایک سے زیادہ حلقوں سے الیکشن لڑتے ہیں تو ان کے اس خوف کا تاوان غریب قوم کیوں ادا کرتی پھرے؟ انتخابی اصلاحات ایک وسیع تر ایجنڈے کا نام ہے۔یہ اصلاحات کسی کو بھی اچھی نہیں لگتیں۔ ہر ایک کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ انتخابی قباحتوں سے فائدہ اٹھانے والا صرف وہی ہو۔چنانچہ ہر اپوزیشن جن حرکتوں پر واویلا کرتی ہے اقتدار میں آخر وہی کام وہ خود کرتی ہے اور مزے سے کرتی ہے۔فرض کریں گلگت بلتستان کے الیکشن ایسے ہی ہوتے جیسے ہوئے ہیں لیکن حکومت اور اپوزیشن کی تربیب الٹ ہوتی۔ تحریک انصاف اپوزیشن میں ہوتی تو کیا اسی شان بے نیازی سے ان انتخابات کو شفاف قرار دیتی؟ اور ن لیگ حکومت میں ہوتی تو کیا پھر بھی وہ تسلیم کرتی کہ دھاندلی ہوئی ہے؟فرض کریںفارن فنڈنگ کیس ن لیگ سے متعلق ہوتا اور اسی طرح لٹک رہا ہوتا تو تحریک انصاف کیا کہہ رہی ہوتی؟ معلوم یہ ہوتا ہے انتخابی اصلاحات ان میں سے کسی کی ترجیح نہیں۔ ان کی ترجیح یہ ہے دھاندلی کے چشموں کا رخ ان کی چراگاہوں کی جانب رہے۔معلوم نہیں شعر کس کا ہے مگر حسب حال ہے: زخم لگا کر اس کا بھی کچھ ہاتھ کھلا دھوکے کھا کر میں بھی کچھ چالاک ہوا