میں سوچ رہا تھا۔واقعی زندگی ایک غیر سنجیدہ چیز ہے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ جینز کی لوح پر کیا لکھا ہے سو اسے سنجیدگی سے گزارنا ایک احمقانہ عمل ہے ہمیں خود پتہ نہیں ہوتا کہ زندگی کی ٹھوکریں کھا کر تلخ و شیریں تجربات سے گزر کر اور حالات و واقعات کی لہروں میں غوطے کھا کر ہم کہاں سے کہاں نکل جاتے ہیں قوی 80بہاریں دیکھ کر زندگی سے منہ موڑ کر دوسری دنیا میں چلے گئے۔پشاور میں آنکھ کھولنے والے محمد قوی خان نے ریڈیو سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔ غربت کے ڈیرے تھے اس لئے دکھ بھوک اور تنگدستی میں لاہور میں قسمت آزمائی کے لئے چل پڑے۔ رحمن پورہ کی تاریک گلی میں ایک کمرے کا مکان ان کا سائبان تھا۔جہاں 5اور 10پیسے کی ضرورتیں پوری کرنا ایک مرحلہ تھا۔میں جب اداکار قوی کی زندگی پر نظر ڈالتا ہوں مجھے اداکار محمد علی یاد آ جاتے ہیں جنہوں نے حیدر آباد کے علاقے گاڑی کھاتہ میں واقع اپنے گھر سے ریڈیو پاکستان پر اپنی آواز کا جادو جگانے کے لئے پیدل آنا جانا پڑتا تھا ۔یہ ان کی خوش قسمتی تھی کہ وہ زیڈ اے بخاری جیسے مایہ ناز کہنہ مشق براڈ کاسٹر کے زیر تربیت رہے۔ناظم آباد میں ہادی مارکیٹ کے عقب میں رہنے والا نذیر بیگ بھی اپنی گائیکی کا شوق پورا کرنے کی لگن میں مگن تھا کہ وہ حادثاتی طور پر اس وقت مشرقی پاکستان میں احتشام کی ڈائریکشن میں بننے والی فلم میں حادثاتی طور پر فلم چکوری کا ہیرو بن کر نذیر بیگ سے ندیم بن گیا جس نے پہلی فلم کے بعد پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ قوی نے لاہور میں اس وقت نہر کے کنارے ملکہ اسٹوڈیو تک رسائی حاصل کی۔ قوی کے ذہن اور دل میں یہ خواہش تو ابتدائی زندگی سے انگڑائی لے رہی تھی کہ ایکٹنگ عملی زندگی میں ان کی پہلی ترجیح ہے۔ یہ وہ دور تھا جب لاہور میں اسٹیج پر فنکار بلا معاوضہ اداکاری کر کے اپنا شوق پورا کرتے تھے۔ اسٹیج فنکاروں کی قطار میں آنے والے وقتوں کے سپر اسٹار سلطان راہی بھی کھڑے تھے۔پھر ایک دن قوی انور کمال پاشا کے روبرو ان کے گھر پہنچ گئے یہاں پہنچ کر انہوں نے دیکھا کہ ان کے ڈرائنگ روم میں فنکاروں کا ایک جمگھٹا تھا۔ انور کمال پاشا اپنے غیر معمولی اعتماد کے ساتھ اپنے انداز میں ایک کنگ نظر آ رہے تھے انہوں نے قوی پر گہری نظر ڈالتے ہوئے کہا نوجوان تم کیا چاہتے ہو۔کمال پاشا کے مشفقانہ لہجے نے قوی میں کچھ توانائی اور اعتماد پیدا کیا بس ہمیں کام چاہیے آپ جو کہیں گے ہم کریں گے۔ انہوں نے پوچھا ‘کتنا پڑھا ہے قوی کا جواب تھا کالج میں فرسٹ ایئر کا طالب علم ہوں وہاں کھڑے ہوئے ایک شخص نے کہا یہ کہو کہ میٹرک پاس ہو اس پر انور کمال پاشا بولے Dont disturb۔اور پھر انہوں نے کہا میں فلم انارکلی بنا رہا ہوں اس فلم میں نورتن میں سے میں تمہیں ایک رتن بنائوں گا یہ لیجنڈری قوی خان کے فلمی کیریئر کی ابتدا تھی۔ قوی صاحب نے اپنے پوری کیرئر میں بڑے مدوجزر دیکھے۔نہ جانے کتنے پروڈیوسرز‘ ڈائریکٹرز اور فنکاروں کو ڈوبتے اور ابھرتے دیکھا ۔ سینکڑوںفلموں اور ٹی وی ڈراموں میں اپنی فنی صلاحیتوں کو منوایا۔وہ کہتے تھے مجھے درحقیقت ریڈیو اور ٹی وی نے بنایا ،نکھارا اور ہمیشہ زندہ رکھا۔دلچسپ بات یہ تھی کہ فلموں میں بھی انہوں نے پروڈکشن کے حوالے سے اپنے جوہر دکھانے کی کوشش کی۔ایک درجن سے زائد فلمیں پروڈیوس کیں۔ایک فلم کی ڈائریکشن بھی دی تین فلموں پر نمائش سے پہلے پابندی لگ گئی اور باقی تکمیل پا کر یا تکمیل کے مختلف مرحلوں میں ڈبوں میں قید رہیں ان کا خیال تھا کہ ان ناکامیوں کی وجہ یہ تھی کہ میں نے جو فلمیں بنائیں وہ فلموں کے رجحانات اور شاید اس وقت کے تقاضوں کے مطابق نہیں تھیں۔ فلموں کا ہر دور میں اپنا ایک مزاج رہا ہے یہ بدلتا رہتا ہے اس کی پسندیدگی کے معیار بھی بدلتے رہتے ہیں۔1964ء میں انہوں نے پہلی بار کیمرے کا سامنا کیا وہ تسلیم کرتے تھے کہ ابتدا میں کیمرے کا سامنا کرتے ہوئے ہر فنکار میں ایک جھلک ہوتی ہے۔گھبراہٹ بھی ایک فطری بات ہے پھر سونے پر سہاگہ یہ کہ اس وقت ری ٹیک کی گنجائش نہیں تھی۔ سب کچھ براہ راست تھا قوی صاحب تسلیم کرتے تھے کہ ٹی وی اور فلم اسکرین پر اداکاری کے انداز تقاضے اور پسندیدگی کے معیار مختلف ہیں۔زندگی کے حقائق کو اس کے اصل روپ میں دیکھنے کے عادی تھے اس لئے کسی کے ردعمل اور رویوں پر نہ خوشی بے قابو ہوئے نہ ملال میں دکھائی دیے۔ ان کی صاحبزادیاں امریکہ اور کینیڈا میں رہتی تھیں ،اولاد سے محبت کرتے تھے لیکن سمجھتے تھے کہ ہر انسان کی اپنی مصروفیات اور اپنی ترجیحات ہیں خود بھی کینڈین نیشنل تھے ،لیکن لاہور میں رہنا یہاں پر کچھ نہ کچھ کرتے رہنا ان کی پہلی ترجیح تھی۔وہ سمجھتے تھے کہ زندگی کے مختلف ادوار میں ہر انسان کی سوچ و فکر کا رنگ و روپ بدلتا جاتا ہے لیکن ہر تعلق اور رشتے کو محبت بھرا بنانے کے لئے انسان کو کمپرومائز کرتے رہنا چاہیے اس لئے میرے رگ اور خون میں رشتے سموئے ہوئے ہیں۔ میں ہمیشہ خود کو ان رشتوں میں جکڑا محسوس کرتا ہوں اپنے بچوں کے ساتھ اچھے تعلق کو خوشگوار بنائے رکھنے کے لئے ہمیں ان کی ضروریات ان کی پسند ناپسند ان کی ترجیحات‘ اس کے رجحانات و سیلاناتِ ان سب کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔درحقیقت ہم باہم غلط فہمیاں پیدا کرنے کے خود ذمہ دار ہوتے ہیں آپ یہ کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ اپنے چاروں طرف موجود لوگوں کو اپنی مرضی اور اصولوں کے مطابق چلا سکتے ہیں۔ در حقیقت ہمیں اپنے دکھ سکھ میں ایک دوسرے سے وابستہ رہنا چاہیے عمومی طور پر ابتدا میں مجھے یوں لگتا تھا کہ لوگ مجھے سمجھ نہیں پاتے لیکن وقت کے ساتھ اپنے قریبی لوگوں کے رویے دیکھ کر مجھے احساس ہونے لگا کہ وہ مجھے بتدریج سمجھنے لگے ہیں پھر یہ کہ میں نے زندگی میں یہ حقیقت بھی پائی کہ بولنے سے زیادہ سننے کی عادت ڈالنی چاہیے آپ کسی سے اتنی ہی بات کریں جتنی وہ بات کرنا چاہتا ہے۔ قوی صاحب کا خیال تھا کہ فلمی دنیا کی چکا چوند میں شاید بہت سے لوگوں کو اس شعبے کے دکھ درد کا اندازہ نہیں ہوتا قوی اپنے پورے کیریئر میں ایک فاتحانہ پیشقدمی کرتے دکھائی دیے قوی نے زندگی میں کتنی محبتیں کیں یہ ان کا سیکرٹ تھا کیونکہ وہ ہمیشہ یکطرفہ محبت کرتے تھے۔ ڈنکے کی چوٹ پر نہیں ۔انہوں نے اداکاریکا ایک درخشاں باب رقم کیا جس میں زندگی میں جستجو کی لہر نظر آتی ہے۔اللہ تعالیٰ ایسے باکمال فنکار کی مغفرت فرمائے۔ ٭٭٭٭٭