رمضان شریف کا بابرکت مہینہ رخصت ہوا چاہتا، عید کی آمد آمد ہے، روزہ بھوک پیاسا رہنے کا نام نہیں بلکہ بھوک اور پیاس کے احساس کا نام روزہ ہے۔ یہ خود احتسابی کا مہینہ بھی ہے ہم نے اپنا اور اپنے نفس کا کتنا احتساب کیا ؟ اس سوال کو بھول کر عید کی تیاریاں ہو رہی ہیںمگر یہ بھی تو حقیقت ہے کہ مہنگائی کے عذاب نے غریب اورکم آمدن والے افراد کیلئے عید کی خوشیاں ختم کر دیں ،غربت اور تنگدستی کی وجہ سے غریبوں کے بچوں کی آنکھوں میں عید کے دن بھی خوشیوں کی بجائے حسرتیں نمایاں ہوتی ہیں۔ وہ عید ہی کیا جس میں غریب رشتہ داروں کو شامل نہ کیا جائے۔ ہمارے ملک میں ہر عید کے موقع پر یہ بھی بڑا سوال ہوتا ہے کہ عید کب ہو گی؟ پاکستان میں دو عیدیں تو عام بات ہے ،تین عیدیں پڑھانے کی بھی روایت بھی ہم میں موجود ہے۔ آج جدید سائنسی دور ہے اس کے باوجود ہم اپنا مستند کلینڈرترتیب نہیں دے سکے۔ رویت ہلال کمیٹی بنائی گئی ہے جس کے ممبران پورے ملک میں ہیں ان کا کام صرف چاند دیکھنا ہوتا ہے جبکہ بدقسمتی سے ان کو نظر نہیں آتا، اس طرح غریب اور مقروض قوم کے کروڑوں روپے ان کی مراعات پر خرچ ہو رہے ہیں۔ پردیسیوں کی عید ؟ تارکین وطن کے علاوہ وہ لوگ جو روزگار کے سلسلے میں اپنے گھروں سے دور بڑے شہروں میں کام کرتے ہیں ، معاشی مشکلات کی وجہ سے ان میں سے اکثریت عید منانے گھر نہیں آ رہی ، پٹرول کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے نے سب کچھ تہہ و بالا کر دیا ہے، کرائے اتنے زیادہ بڑھ چکے ہیں کہ ایک مزدور یا غریب ملازم سوچ ہی نہیں سکتا، ایک مہینے میں جتنا کماتا ہے اس میں آنے جانے کا کرایہ بھی پورا نہیں ہوتا۔ تارکین وطن کی عید کا کچھ نہ پوچھئے کہ گزشتہ روز سعودی عرب میں ٹریفک حادثے میں نو پاکستانی جاں بحق ہوگئے، بتایا گیا ہے کہ پاکستانی خاندان مدینہ منورہ سے ریاض جا رہا تھا کہ القصیم کے قریب ان کی گاڑی تیز رفتاری کے باعث الٹ گئی، حادثے میں جاں بحق ہونے والے افراد کا تعلق ننکانہ کے گائوں اسلام نگر اور چک 18 سے بتایا گیا ہے۔ اس سے پہلے دبئی کی رہائشی عمارت میں آتشزدگی کے باعث سولہ افراد جاں بحق ہوئے جن میں تین پاکستانی ملک بلال کھاڑک، ملک سجاد کھاڑک اور ملک فاروق کھاڑک بھی شامل ہیں اور ان کا تعلق ضلع ڈیرہ غازی خان سے تھا۔ گزشتہ روز مرحومین کی خاکستر میتیں ڈیرہ غازی خان پہنچیں تو پورا وسیب سوگوار ہو گیااور عید کی خوشیاں جاتی رہیں۔ اگر ہم تاریخ پر غور کریں تو قبل از اسلام عرب کے لوگ سال میں خوشی کے دو تہوار مناتے تھے ، ان میں سے ایک کا نام ’’ عکاظ ‘‘ اور دوسرے کا نام ’’ محنہ ‘‘ تھا۔ یہ تہوار ایک میلے کی شکل میں ہوتے تھے اور عرب ثقافت میں ان کا بھرپور اظہار ہوتا تھا ۔ سرکار دو عالم ﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو آپﷺ نے پوچھا خوشی کے ان دنوں میں آپ کیا کرتے ہیں تو عرض کیا گیا ہم کھیلتے ہیں، کودتے ہیں ‘نئے کپڑے پہنتے ہیں اور کھانے کا اہتمام کرتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا ان دونوں دنوں کے بدلے دو عیدیں دی جاتی ہیں۔ عیدالفطر اور عید الاضحی۔ چنانچہ عید الفطر کا آغاز ہوا۔ بزرگ کہتے ہیں کہ عید پر پانچ چیزوں کا اہتمام ضروری ہے ۔نہا دھو کر صاف ستھرا لباس پہننا، گھر میں اچھاکھانا پکانا، خوشبو لگانا، معانقہ کرنا اور مسکراہٹیں بکھیرنا، بزرگوں اور غمزدہ لوگوں کے پاس خود چل کر جانا۔ عید خوشیوں کا نام ہے ، خوشبوؤں کا نام ہے ،آرزؤں اور تمناؤں کانام ہے۔ ایک دوسرے سے،محبت کا نام ہے تو ضروری ہے کہ حکومت غمزدوں کو خوشیوں میں شریک کرے ، یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ عید کے بہت سے لوازمات ہیں ، صرف نئے کپڑے پہننے کا نام عید نہیں۔ ’’ بچے جیتے رہو ‘‘ جیسے میٹھے بول سے ہم غریب کے بچے کو عید کی خوشیوں میں شریک کر سکتے ہیں ۔ غریب اور پڑوسی ، بے سہارا، نادار اور یتیم ہمسائے کا ہم خیال رکھیں تو عید کی خوشی حقیقی خوشی ہو سکتی ہے اور ہر ضرورت مند کا ہر پل خیال رکھیں تو ہر پل عید کا پل ہو سکتا ہے ۔ دکھاوے اور رسمی رکھ رکھاؤ کی نہیں عید پر عملی اقدامات کی ضرورت ہے ، کیا اس طرف توجہ ہو گی ؟ یہ بھی تو سچ ہے کہ عید خوشی کے دن کا نام ہے ، حقیقی خوشی تب ہوتی ہے جب خوشحالی ہو گی مگر ہمارے ملک کی بہت بڑی آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے ۔روٹھوؤں کو منانا بھی عید کا نام ہے ،عید الفطر کو میٹھی عید کہا جاتا ہے ،سندھی سرائیکی ،پنجابی، پوٹھوہاری ، براہوی، کشمیری اردو اور دوسری پاکستانی زبانوں میں بھی عید الفطر کو میٹھی اور ’’سیویوں‘‘ والی عیدکہا جاتا ہے ۔ امراء کیلئے ہر دن روز عید ہے مگر غریب آج بھی غریب تر اور امیر امیر تر ہو رہاہے۔پوری دنیا میں رائج طبقاتی سسٹم میں کائنات کے امن و سکون کو برباد کر کے رکھ دیا ہے ،ہمارے ہاں مہنگائیکے عذاب کے باوجود بازاروں میں شاپنگ کا رش لگا ہوا ہے، اگر امراء شاپنگ کا صرف پانچ فیصد بھی غریبوں کو دے دیتے تو ان کی عید ہو جاتی۔ کہا جاتا ہے کہ عید خوشی کا نام ہے اور خوشی احساس کا نام ہے۔ احساس یہ ہے کہ سرکار دو عالم ﷺ عید پڑھنے جا رہے ہیں ، ایک ہاتھ کی انگلی کو پیارے نواسے حسین ؓاور دوسری کو حسنؓ نے تھاما ہوا ہے ، راستے میں میلے اور پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس بچہ رو رہاہے ، آپ فوراً رُک جاتے ہیں ، بچے کو گودمیں لے کر پیار کرتے ہیں ، رونے کا ماجراء پوچھتے ہیں ،بچہ کپکپاتے ہونٹوں کوجنبش دے کر کہتا ہے کہ میں یتیم ہوں، آپ کی آنکھوں میں آنسو رواں ہو جاتے ہیں ، آپ عید گاہ نہیں جاتے، واپس گھر تشریف لاتے ہیں ،بچے کو نہلاتے ہیں ، نئے کپڑے پہناتے ہیں ،بہت زیادہ پیار کرتے ہیں اور اس وقت تک نماز ادا نہیں فرماتے جب تک رونے والا بچہ مسکرایا نہیں؟۔ ٭٭٭٭