سیموئیل ہٹنگٹن نے کہا تھا کہ سیاست میں پیشہ وارانہ مہارت سے عسکری مداخلت کو کم سے کم کیا جا سکتا ہے۔ہٹنگٹن کی تجویز اس بات پر دلیل ہے کہ سیاست میں عسکری مداخلت صرف ترقی پذیر دنیا کا ہی مسئلہ نہیں بلکہ ترقی یافتہ ممالک کو بھی اس کشمکش کا سامنا رہتا ہے ۔اتنا فرق ضرور ہے کہ امریکہ‘ یورپ‘ روس یہاں تک کہ بھارت بھی کمزور ممالک کی سیاست میں مداخلت کے لئے عسکری مداخلت کو سیاسی مہارت سے استعمال کر رہے ہیں جبکہ ترقی پذیر ممالک نے اقتدار کے ایوانوں تک رسائی کے لئے عسکری مداخلت کے استعمال کا نام سیاسی مہارت رکھ دیاہے۔ بھٹو سے نواز شریف تک اسی عطار کے لونڈے سے دوا لینے کا ہنر آزمایا جاتا رہا ہے۔ اصغر گونڈوی نے کہا تھا: جسے لینا ہو آ کر اس سے درس جنوں لے لے سنا ہے ہوش میں ہے اصغر دیوانہ برسوں سے وطن عزیز میں جنوں کے اس درس نے سیاست اور عسکری مداخلت کا ایک دلفریب رشتہ استوار کر دیا ہے۔ محبت اور گریز کے اس رشتے کا ہی کمال ہے کہ ماضی میں اگر انتخابات کے منصفانہ اور شفاف ہونے کا معیار فوج کی نگرانی ہوا کرتا تھا تو آج مولانا فضل الرحمن سیاست کو اس بدعت سے پاک کرنے کے لئے اسلام آباد میں پڑائو ڈالے ہوئے ہیں۔ پشاور موڑ میں دھرنا ہے تو اسلام آباد کی نااہل حکومت کے خلاف مگر مطالبات راولپنڈی کے سامنے رکھے جا رہے ہیں۔ مولانا کی اس یلغار کو بلا جواز اور سعی لاحاصل اس لئے بھی نہیں کہا جا سکتا کہ موصوف اسلام آباد راولپنڈی سے ہی نہیں جاتی امرا اور بلاول ہائوس سے بھی دھرنے کے ثمرات سمیٹ چکے ہیں۔ مارچ سے پہلے ہی سیاست کو میاں نواز شریف اور زرداری کی عملی سیاست سے آزادی مل چکی تھی۔ گزشتہ سے پیوستہ تحریر میں انہی صفحات پر مولانا کے سیاسی ’’دلہا‘‘ بننے کی بات میاں نواز شریف کی لندن روانگی کی صورت میں سچ ثابت ہونے کو ہے۔ رہے آصف زرداری تو وہ پہلے ہی ڈرائیونگ سیٹ پر بلاول بھٹو کو بٹھا چکے ہیں۔شہباز شریف بھی بڑے پاجی کی سوچ کا تاوان سمجھ کر اگلے پانچ سال تک جاری بندوبست کو قبول کرنے کی حامی بھر چکے ہیں۔ اس کیلئے انہوں نے بڑے بھائی اور بھتیجی کو خیروعافیت سے لندن بھجوانے کی راہ ہموار کر لی ہے اور سلمان شہباز اپنے والد کی سیاسی بصیرت کے گن گاتے نہیں سما رہے۔ رہی بات لوٹے ہوئے مال کی واپسی کی تو یہ محض غیر مستعد دعوئوں تک ہی محسوس ہوتی ہے۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ نئے بندوبست میں میاں نواز شریف قبول کرنے کے لئے تیار نہ تھے۔ نواز شریف کو ووٹ کو عزت دو کا بخار تھا جو 60دن کی جیل نے رفو کر دیا۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ اگر معاملات اس قدر سادہ ہی تھے تو مولانا کو کروڑوں خرچ کر کے لاکھوں کا مجمع پشاور موڑ پر بٹھانے کی کیا ضرورت تھی تو اس کا سیدھا جواب تو یہی ہے کہ دھرنا اس لئے ضروری تھا کیونکہ عمران خان ’’کسی کو نہیں چھوڑوں گا‘‘ کی خو چھوڑنے کے لئے آمادہ نہ تھے اوربندوبست میں مسلسل حائل ہو رہے تھے۔ مولانا کے دھرنے نے کرسی کو جھنجھوڑا تو احتساب اور اصول کا خمار اتر گیا جو ’’کل تک مرنے کے لئے تیار تھا‘‘ اس نے عبادت کی بجائے سیاست پرتکیہ کرتے ہوئے یوٹرن میں ہی عافیت جانی۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے کہا تھا کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا سیاست جنوں کے بس کی بات نہیں یہ تو عقل کی بچھائی ہوئی شطرنج ہے۔ دھرنے کی کھیر تو جنہوں نے پکائی تھی انہی کو کھانی تھی اور انہوں نے کھائی بھی۔ البتہ اس کھیل میں بارہویں کھلاڑی چودھری برادران کے حصے میں ہنڈیا ضرور آ گئی ہے جس کے پیندے میں کم از کم پنجاب کی حکمرانی کی کھیر تو شاید بچی ہی ہو۔ اب یہ تو ’’جو بڑھ کر اٹھالے مینا اسی کا ہے‘‘ والا معاملہ ہے چودھری شجاعت کا کہنا سچ محسوس ہوتا ہے کہ مولانا آپ نے میلہ لوٹ لیا ہے شہباز اور بلاول کی سیاست وقتی طور پر ہی سہی پس منظر میں چلی گئی ہے اور مولانا ایک جے یو آئی ہی نہیں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ سمیت تین تین جماعتوں کی قیادت کا خود کو اہل ثابت کر چکے، معاملات بندوبست کے مطابق آگے بڑھ رہے ہیں سیاست حصہ بقدرجثہ ثمرات بانٹ رہی ہے، تو دھرنے کا جواز بھی ختم ہو ہی جائے گا باقی رہا فیس سیونگ کا معاملہ تو یہ کون سی بڑی بات ہے اس کیلئے تو میر کا یہ شعر ہی کافی ہے: اب تو جاتے ہیں بت کدے سے میر پھر ملیں گے اگر خدا لایا سیاست کھیل ہے مگر یہ بندر کے کھیل ایسا سادہ بھی نہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ بندر کے کھیل میں بظاہر بندر ناچ رہا ہوتا ہے اور تماشائی یہ سمجھ کر خوش ہو رہے ہوتے ہیں کہ بندر مداری کے اشاروں پر ناچ رہا ہے حالانکہ مداری بندر کے ساتھ تماشائیوں کو بھی اپنی انگلیوں پر نچا رہا ہوتا ہے۔ تبھی تو مجمع تماشا دیکھنے کے لئے خود تماشا بنا ہوا ہوتا ہے۔ سیاست ایسا ہی کھیل ہے جس میں بقول گبریل لائوب آزاد رعایا کو آزادی سے محبت کرنے کا حکم دیا جاتا ہے ۔آج تک کے سیاسی بندوست سے تو یہی اندازہ ہو رہا ہے کہ دھرنا سیاست کا انجام تمام فریقین کے لئے ون ون پوزیشن پر ہو گا اور سب کو اسی تنخواہ پر کام کرنا پڑے گا۔رہا وزیر اعظم کے استعفیٰ اور نااہل فلاں فلاں کے ایجنٹ کو گھر بھیجنے کی خواہش پوری ہونے کے امکانات اس لئے نہیں کہ جب جہاز ڈوب رہا ہو تو سب سے پہلے چوہے چھلانگ لگانا شروع کرتے ہیں اور ابھی تک تو تمام کے تمام چوہے گھر والے اور مہمان سب کے سب حسب بساط سرکاری وسائل کترنے کے کام میں لگے ہوئے ہیں۔ہٹنگٹن نے سیاست میں پیشہ وارانہ مہارت سے عسکری مداخلت کو کم سے کم کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ پاکستان کی سیاست نے اپنے ارتقائی عمل سے کس قدر پیشہ وارانہ مہارت حاصل کی اس کا فیصلہ آنے والے وقت اور تاریخ کو کرنا ہے۔