بلوچستان کے علاقے پشین کی تحصیل خانوزئی میں نامعلوم شرپسندوں نے لڑکیوں کے دو سکولوں کو آگ لگا دی۔ اس سے قبل 3اگست کو گلگت بلتستان کے ضلع دیامر کے علاقے چلاس میں واقع 12سکولوں کو نشانہ بنایا گیا جن میں متعدد دھماکے کیے گئے اور پھر ان کو آگ لگا دی۔ پشین میں آگ لگانے کا واقعہ چھٹی کے بعد پیش آیا جبکہ گلگت بلتستان میں سکولوں کو نشانہ رات گئے بنایا گیا تھا۔ سکولوں کو جلانا نہ صرف علم دشمنی بلکہ انسانیت دشمنی کی بدترین مثال ہے یہ یقینا ان شرپسند عناصر کی کارروائیاں ہیں جو لڑکیوں کی تعلیم کے مخالف ہیں ان دونوں واقعات کو بنیاد بنا کر تمام پہلوئوں اور امکانات کا جائزہ لینا چاہیے کہ آخر یہ کون لوگ ہیں جو خصوصاً لڑکیوں کی تعلیم کی مخالفت کر رہے ہیں۔یقینا یہ شرپسند عناصر دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے ساتھ ساتھ ان اقتصادی معاشی ترقیاتی کوششوں کو بھی سبو تاژ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو سی پیک منصوبے کے تحت روبہ عمل ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ علاقے میں سرگرم ان گروپوں کے پس پشت پاکستان مخالف بیرونی طاقتوں کا بھی ہاتھ ہو۔ اس پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ یہ صورتحال حفاظتی انتظام میں واضح خلاکی نشاندہی کرتی ہے۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ متاثرہ علاقوں میں سکولوں میں حفاظتی انتظامات کو یقینی بنایا جائے تاکہ کل کلاں ہماری یہ عدم توجہی کسی جانی نقصان کا باعث نہ بن جائے‘ دوسرے یہ کہ ان علاقہ میں تعلیم کی ترقی کے لیے جو اقدامات کئے جا رہے ہیں انہیں پورے عزم کے ساتھ جاری رکھا جائے علاوہ ازیں علاقے میں سی پیک منصوبے کے تحت جو ترقیاتی پروگرام شروع کیے گئے ہیں انہیں بحفاظت پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے اور علاقے میں شرپسندوں کے خلاف آپریشن کر کے علاقے کو ان سے پاک کیا جائے تاکہ لڑکیوں کے لیے تعلیمی نظام اور ماحول کو بحفاظت اور سازگار بنایا جا سکے۔
دیامر کے بعد پشین میں بھی لڑکیوں کے سکولوں پر حملہ
جمعرات 09 اگست 2018ء
بلوچستان کے علاقے پشین کی تحصیل خانوزئی میں نامعلوم شرپسندوں نے لڑکیوں کے دو سکولوں کو آگ لگا دی۔ اس سے قبل 3اگست کو گلگت بلتستان کے ضلع دیامر کے علاقے چلاس میں واقع 12سکولوں کو نشانہ بنایا گیا جن میں متعدد دھماکے کیے گئے اور پھر ان کو آگ لگا دی۔ پشین میں آگ لگانے کا واقعہ چھٹی کے بعد پیش آیا جبکہ گلگت بلتستان میں سکولوں کو نشانہ رات گئے بنایا گیا تھا۔ سکولوں کو جلانا نہ صرف علم دشمنی بلکہ انسانیت دشمنی کی بدترین مثال ہے یہ یقینا ان شرپسند عناصر کی کارروائیاں ہیں جو لڑکیوں کی تعلیم کے مخالف ہیں ان دونوں واقعات کو بنیاد بنا کر تمام پہلوئوں اور امکانات کا جائزہ لینا چاہیے کہ آخر یہ کون لوگ ہیں جو خصوصاً لڑکیوں کی تعلیم کی مخالفت کر رہے ہیں۔یقینا یہ شرپسند عناصر دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے ساتھ ساتھ ان اقتصادی معاشی ترقیاتی کوششوں کو بھی سبو تاژ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو سی پیک منصوبے کے تحت روبہ عمل ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ علاقے میں سرگرم ان گروپوں کے پس پشت پاکستان مخالف بیرونی طاقتوں کا بھی ہاتھ ہو۔ اس پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ یہ صورتحال حفاظتی انتظام میں واضح خلاکی نشاندہی کرتی ہے۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ متاثرہ علاقوں میں سکولوں میں حفاظتی انتظامات کو یقینی بنایا جائے تاکہ کل کلاں ہماری یہ عدم توجہی کسی جانی نقصان کا باعث نہ بن جائے‘ دوسرے یہ کہ ان علاقہ میں تعلیم کی ترقی کے لیے جو اقدامات کئے جا رہے ہیں انہیں پورے عزم کے ساتھ جاری رکھا جائے علاوہ ازیں علاقے میں سی پیک منصوبے کے تحت جو ترقیاتی پروگرام شروع کیے گئے ہیں انہیں بحفاظت پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے اور علاقے میں شرپسندوں کے خلاف آپریشن کر کے علاقے کو ان سے پاک کیا جائے تاکہ لڑکیوں کے لیے تعلیمی نظام اور ماحول کو بحفاظت اور سازگار بنایا جا سکے۔
آج کے کالم
یہ کالم روزنامہ ٩٢نیوز میں جمعرات 09 اگست 2018ء کو شایع کیا گیا
آج کا اخبار
-
پیر 25 دسمبر 2023ء
-
پیر 25 دسمبر 2023ء
-
منگل 19 دسمبر 2023ء
-
پیر 06 نومبر 2023ء
-
اتوار 05 نومبر 2023ء
اہم خبریں