ہمارے محب ڈاکٹر علی محمد خاں پانی پتی کو بھی قدرت نے کیا سیماب صفتی عطا کی ہے کہ نچلا بیٹھنا تو دُور کی بات کہیں ٹِک کر بیٹھنے کا بھی نام نہیں لیتے۔ کبھی آسٹریلیا، کبھی انگلینڈ، کبھی دبئی، گویا ایک چکر ہے مِرے پاؤں میں زنجیر نہیں… کبھی ملک میں رہنا نصیب ہو بھی جائے تو بھی زمین کا گز بنے رہتے ہیں۔ اَسّی سال کے ہو گئے لیکن ان کی سرگرمیاں دیکھ کے لگتا ہے ابھی اِسی سال جوان ہوئے ہیں۔ اپنی شادی کی پچاسویں سالگرہ بھی ایسے منائی جیسے کوئی پہلا ہنی مون مناتا ہے۔ بیوی اور قریبی احباب سے محبت کا یہ عالَم کہ میں نے ان کی اسی گولڈن جوبلی تقریب میں پڑھی جانے والی نظم میں تجویز دی تھی کہ: آج سے ان کا نام بدل کے علی محبت خان نہ رکھ دیں؟ اچھا کھانا ہو یا کہیں جانا، اس سلسلے میں وہ پنجابی کے اکھان ’جیہڑا وَنڈ کھائے، کھَنڈ کھائے‘ کے دل و جان سے قائل ہیں۔ کرونا کی دھاک، خاک میں ملی تو ان کے اندر کے سیّاح نے بھی انگڑائی لی۔ گزشتہ اتوار سے دو دن پہلے ان کی حکم آمیز دعوت موصول ہوئی: ’’اس اتوار کو کرتار پور چلنا ہے؟‘‘ ہمارے تأمل کا بوریا بستر گول کرنے کے لیے ساتھ ہی نوید سنائی ’’ اچھے کھانے اور مکمل پروٹوکول کے ساتھ!‘‘ ہمارے اخلاقی اور اطلاقی عقیدے میں ’’چُپڑی اور دو دو‘‘ سے انکار کفرانِ نعمت میں آتا ہے۔ پھر انھوں نے تو صبح روانہ ہونے سے پہلے ناشتے میں دیسی سرسوں کے ساگ، تازہ مکھن اور مکئی کی روٹی کی اشتہا انگیز ’مزید تاکید‘ بھی شامل کر دی۔ پُر خمار ناشتے کے بعدڈاکٹر صاحب کے وعدے کی تکمیل کا سلسلہ رانا نعمان اعجاز کی ڈرائیونگ سے شروع ہوا۔ نعمان اعجاز سنا سنا نام ہے، پورے دن کی بھرپور خدمات کی بنا پر اب تو ان کا ہر کام بھی سنا سنا لگتا ہے۔ یہ نوجوان لاء کا طالب علم اور ڈاکٹر صاحب سے دیرینہ و خاندانی دوستی والے مراسم رکھتا ہے۔ اس کو ساتھ لے جانے کا مقصد یہ بھی نظر آیا کہ اس کا سیدھا سادہ گاؤں اور دیسی مرغیوں اور کثیر بھینسوں والا فارم بھی راستے میں پڑتا تھا، جو بعد ازاں اِن تن آسان مسافروں کے بہت کام آیا۔ کاموں کی بہتات سے تھک کر واپسی پر کامونکی میں قیام کیا تو وہاں نعمان اعجاز کے پچانوے سالہ داداجناب رانا محمود خاں سے بھی دلچسپ ملاقات رہی۔ رانا صاحب اپنے علاقے کی معروف سیاسی و سماجی شخصیت ہیں۔ اس عمر میں بھی ان کے ہشاش بشاش ہونے کی وجہ ان کی سادہ و خالص خوراک اور خدمتِ خلق ہے۔ شاید اسی جذبے کے تحت انھوں نے ایمن آباد کی برفی اور کامونکی کا خالص سرسوں کا تیل بوساطت رانا احتشام، چپکے سے ہمارے ہمراہ کر دیا۔ ایک صدی سے پانچ قدم دُور بیٹھے ان زندہ دل رانا صاحب کو ہم نے کڑک چائے اور سگریٹ نوشی کے ذریعے ڈاکٹروں حکیموں کی نصیحتوں کا سرِعام مذاق اڑاتے بھی دیکھا۔ پھر اسی کامونکی سے مجھے اپنے وہ بتیس سال پرانے سندھی دوست سکھر کا نذیر کلہوڑو، گمبٹ کا الطاف کھوڑو، نواب شاہ کا شکور کے کے اور شکار پور سے اچار کے ڈبے بھر کے لانے والا ارشاد جمانی بھی بہت یاد آئے، جنھوں نے ہمارے ساتھ سیالکوٹ کے فیڈرل کالج میں جوائن کیا تھا۔ وہ اسی راستے سے آتے جاتے تھے۔ ایک دن کلہوڑو، جو شماریات کا لیکچرار تھا، کہنے لگا: وِرک صاحب! آپ کے پنجاب میں ’کی‘ کا بہت استعمال ہوتا ہے۔ ہم نے پوچھا: وہ کیسے؟ تو کہنے لگے: کامونکی، سادھوکی، اُگو کی، پتوکی، بُچیکی، تینوں کی، مینوں کی، سانوں کی؟ کرتارپور کے راستے کی گپ شپ اور ڈھابے والی چائے سے مستفید ہوتے سیالکوٹ والے نئے موٹر وے اور پھر مقامی سڑک کے ذریعے تلونڈی، واہنڈو اور قلعہ کالر والا (یہاں ہماری محققانہ طبیعت کوئی بَین والا قلعہ بھی ڈھونڈتی رہی) جیسے نشانوں کو پھلانگتے نارووال پہنچے۔ یہ شہر ہمیں فیض احمد فیض، ہاشم شاہ، ’بِرہُوں دی رَڑک‘ والے شِو کمار بٹالوی، پیارے دوست جسٹس انوار الحق پنوں اور اپنی ایم اے اُردو کی کلاس فیلو (موجودہ پرنسپل) نائلہ بٹ کی وجہ سے اچھا لگتا ہے۔ نومبر کی نرم دھوپ میں نارووال سے شکرگڑھ کہ پاکستان میں ہوتے ہوئے جس کا لٹریسی ریٹ سو فیصد اور جہاں کا وقت پاکستان کا سٹینڈرڈ ٹائم قرار پاتا ہے، کی جانب کشادہ شاہراہ کو کار کے ٹائروںسے ماپتا ڈاکٹر علی محمد خان، رانا یوسف اور راقم پر مشتمل یہ قافلہ کرتارپور موڑ پہنچا تو خاں صاحب کی توقع اور اطلاع کے عین مطابق شکر گڑھ کے تحصیل دار محمد اکرم چودھری کو منتظر پایا، جن کی معیت میں کرتار پور کاریڈور میں داخلے سے خارجہ اور لنگر تک کے تمام مراحل آسان ہوتے چلے گئے۔ ایسا پڑھا لکھا اور عاجز تحصیل دار مَیں نے پہلی بار دیکھا، جس نے ہماری اس یاترا کی سہولت کاری کے ساتھ باتوں باتوں میں سکھ برادری کے اس مقدس استھان کی تاریخ اور جغرافیہ بھی ازبر کرا دیا۔ انھوں نے یہاں کے میڈیا فوکل پرسن جنوبی وزیرستان کے اکرام اللہ اور گروجی کی سمادھی پر متعین راکیش سنگھ اور آکاش سنگھ کے تعارف، لیکچر اور مدد سے اس یاترا کو مزید پُرلطف بنایا۔ جب ہم نے راکیش سنگھ سے بابا نانک کی تعلیمات کا خلاصہ پوچھا تو اس نے بتایا کہ اگر اس کو ایک لفظ میں سمیٹا جائے تو وہ ہے توحید!! محمد اکرم صاحب نے بتایا کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں سکھ مذہب کے بانی گرونانک (1539-1469ئ) نے اپنی ستر سالہ زندگی کے آخری اٹھارہ سال گزارے۔ قبل ازیں یہ جگہ چونتیس کنال پر مشتمل تھی اور بے شمار پابندیوں کی بنا پر سکھ دھرم کے لوگ پندرہ کلومیٹر دور یعنی بارڈر پار بنی مصنوعی پہاڑی ، جسے ’درشن پوائنٹ‘ کا نام دیا گیا تھا، کے اوپر سے ہی اس سمادھی کا دیدار کر لیتے تھے۔ پاکستان کے موجودہ وزیرِ اعظم عمران خان نے اس رقبے کو بیالیس ایکڑ تک وسعت اور یاتریوں کو بے پناہ سہولتیں دے کر دنیا بھر کے سکھوں کے دل ہمیشہ کے لیے جیت لیے ہیں۔ بابا نانک ، جن کی جنم بھومی ننکانہ صاحب ہے، جہاں آج کل ان کے 552 ویں جنم دن کی تقریبات جاری ہیں۔ وہاں انھوں نے صرف ابتدائی چودہ برس بسر کیے ۔ اس کے بعد ان کے والد جو ایک کاروباری آدمی تھے، نے بیٹے کو انیس روپے دیے کہ جاؤ بیٹا اِس رقم سے سودا خرید کے کاروبار کرو۔ بیٹے نے وہ رقم محتاجوں کو کھانا کھلانے پہ صرف کر دی۔ جب باپ نے پوچھا کہ یہ کون سا سودا ہے؟ تو فرمایا: ’سچا سودا‘ ۔ شیخوپورہ سے چند کلومیٹر پر واقع گاؤں ’سچا سودا‘ اسی سخاوت کی یادگار اور بابا جی کی سیوا کا نقطۂ آغاز ہے۔ بابا نانک نے اپنی زندگی کے بہت سے سال سرزمینِ حجاز اور پانچ برس بغدادمیں بسر کیے، یہیں سے وہ اسلام اور توحید کی جانب راغب ہوئے اور بعض رویات کے مطابق اسلام قبول کر لیا۔ شاعرِ مشرق نے ’بانگِ درا‘ میں شامل اپنی نظم ’نانک‘ میں انھیں اسی حوالے سے خراجِ عقیدت پیش کیا ہے: آشکار اُس نے کیا جو زندگی کا راز تھا ہند کو لیکن خیالی فلسفے پر ناز تھا آہ شُودر کے لیے ہندوستاں غم خانہ ہے دردِ انسانی سے اس بستی کا دل بیگانہ ہے بت کدہ پھر بعد مدت کے مگر روشن ہوا نورِ ابراہیم سے آزر کا گھر روشن ہوا پھر اُٹھی آخر صدا توحید کی پنجاب سے ہند کو اِک مردِ کامل نے جگایا خواب سے