اس پروگرام کا ٹھیک نام کیا ہے جس کی سربراہی نیک نام خاتون ثانیہ نشتر کر رہی ہیں؟احساس پروگرام یا بے نظیر فنڈ؟۔ یہ سوال پوچھنے کی نوبت یوں آئی کہ آڈیٹر جنرل کے حوالے سے ایک رپورٹ ٹی وی چینلز پر گردش کر رہی ہے کہ بے نظیر سپورٹ فنڈ پروگرام میں 2020-21ء کے دوران 23ارب روپے کے گھپلے ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے‘چینلز نے یہ خبر اسی طرح چلائی جس طرح انہیں ’’مجاز اتھارٹی‘‘ کی طرف سے وصول ہوئی۔بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام زرداری حکومت نے شروع کیا تھا اور نواز حکومت نے اس کی افادیت کے پیش نظر اسے جاری رکھا تھا۔ عمران حکومت نے نام تبدیل کر کے اسے احساس پروگرام کر دیا اور پھر خوب ڈھول ڈھمکے کے ساتھ یہ تاثر بھی دیا گیا کہ یہ پروگرام عمران خاں نے شروع کیا ہے اور یہ ان کی غریب دوستی کا ثبوت ہے۔ گھپلے اور ہیرا پھیری مالیتی 21ارب کی خبر جاری کرنا پڑی تو سابقہ نام غلطی سے نشر ہو گیا یا’’حکمت عملی‘‘ کے تحت ایسا کیا گیا ‘ظاہر ہے‘پہلی نظر میں یہی تاثر ملے گا کہ سابق کرپٹ حکمرانوں کی ایک اور کرپشن پکڑی گئی۔رپورٹ جاری کرنا ہی تھی تو سال 20‘21ء کے بجائے 17‘18ء کر دیتے تو تیر بہدف ہوتا لیکن اب یہ تیر بھٹک سا گیا ہے۔ ٭٭٭٭٭ گھپلے‘ہیرا پھیری‘بدعنوانی اور کرپشن میں کیا فرق ہے؟یہ ایک اور سوال یوں اٹھا کہ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کے مطابق مختلف وزارتوں میں 404ارب 62کروڑ روپے کے ہیر پھیر کی خبر بعنوان’بے ضابطگی‘‘ جاری ہوئی ہے۔ تفصیل ذرا لمبی ہے لیکن مختصر یہ کہ وفاقی حکومت کے سول اخراجات میں 268 ارب 87کروڑ کا گھپلا ہوا‘اطلاعات میں کہ 21ارب 9کروڑ کا ہیر پھیر ہوا۔خزانے کی وزارت میں 136 ارب 82 کروڑ اور بحری امور میں 31 ارب 38کروڑ کا ہیر پھیر ہوا۔داخلے میں 7ارب 53کروڑ ادھر ادھر ہو گئے۔ کرپشن اور چیز ہے‘ادھر ادھر ہونا اور بات ہے۔ثابت ہوا کہ 404ارب یعنی چار کھرب سے زیادہ رقم ادھر ادھر ضرور ہوئی ہے لیکن اس سے وفاقی حکومت کے ایماندار اور صادق ہونے پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ ٭٭٭٭٭ دو سینئر صحافیوں کو ایف آئی اے نے اغوا کر لیا۔اتنا غل مچا کہ ناچار رہا کرنا پڑا۔بعدازاںایف آئی اے نے بتایا کہ ’’ملزموں‘‘ کے خلاف ثبوت اکٹھے کئے جا رہے ہیں۔یعنی ثبوت اکٹھے ہونے سے پہلے ہی پکڑ لیا۔مزیدار بات ہے۔جس طرح پکڑا گیا‘گرفتاری اس طرح سے نہیں ہوا کرتی چنانچہ یار لوگوں نے اسے اغوا کا نام دیا۔ اغوا تھا یا گرفتاری‘معاملہ بہرحال سنجیدہ ہے۔ایف آئی اے صحافیوں کو ذمہ دار بنانے کی ذمہ داری نبھا رہی ہے جس کی تعریف ہی کی جانی چاہیے۔ بیشتر صحافی تو عمران حکومت کے آتے ہی ذمہ دار ہو گئے تھے‘جو چند ایک نہیں ہوئے‘انہیں بحالت مجبوری اداروں نے باہر کے دروازے کا رستہ بتا دیا۔اب خدا کے فضل سے جملہ راوی ہر قسم کا چین لکھ رہے ہیں البتہ ’’بے گھر‘‘ ہونے والے کچھ صحافیوں نے سوشل میڈیا پر صحافت شروع کر دی اور بالعموم یہ حضرات غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے پائے گئے ہیں‘ایف آئی اے اور دوسرے اداروں کو ایک بار پھر‘باامر مجبوری‘ان کی اصلاح کے لئے قدم اٹھانا پڑ رہے ہیں۔ ان صحافیوں کے بھلے کے لئے چند سطور بطور رہنما اصول یا گائیڈکے طور پر رقم کی جا رہی ہیں‘ان سے رہنمائی پکڑیں گے تو فائدے میں رہیں گے۔ پہلا اصول یہ ہے کہ آئین اور جمہوریت جیسی چیزوں کے ذکر سے پرہیز فرمائیں۔قوم کے ایک محسن ضیاء الحق نے بتایا تھا کہ آئین چیتھڑا ہے۔اسے چیتھڑا ہی سمجھا جائے‘ مقدس صحیفہ نہ مانا جائے۔دوسرے محسن قوم پرویز مشرف نے جمہوریت کو SHAMEقرار دیا تھا یعنی جعلی نظام۔اصلی نظام انہوں نے نافذ کر کے دکھایا تھا‘افسوس قوم نے قدر نہ کی۔ دوسرا اصول یہ ہے کہ انسانی حقوق ایک بے معنی اصطلاح ہے۔قدرت کے قانون سمجھیں۔جس کے پاس مائٹMightہے‘ وہ اپنے انسانی حقوق خود ہی حاصل کر لے گا‘آپ کو کیا۔ مائٹ انگریزی لفظ ہے‘اردو میں اس کے دو ترجمے ہیں۔ایک ڈنڈا‘دوسرا پیسہ۔دراصل دونوں ایک ہی شے کے دو نام ہیں۔جس کے پاس ڈنڈا ہے ‘پیسہ خود اس کے پاس آ جائے گا اور جس کے پاس پیسہ ہے‘ڈنڈا خود بخود اس کا ہتھیار بن جائے گا۔ تیسرا اصول یہ ہے کہ ’’ووٹ کی حرمت‘‘ کا فاسق و فاجر عقیدہ ترک کر دیں اور خدا کا شکر ادا کریں کہ قوم کو ’’صحیح قیادت‘‘ منتخب کرنے کے جھنجھٹ سے نجات دلا دی گئی ہے۔فی الحال یہ تین اصول ہی سامنے رکھئے‘باقی کے پھر سہی۔ ٭٭٭٭٭ اڑھائی سال پہلے دواوں کی قیمت میں ہوشربا اضافہ ہوا تھا۔پھر یہ سلسلہ چل نکلا۔گزشتہ ہفتے بارہواں اضافہ کیا گیا اور تین سو ادویات کے نرخ 50سے 150فیصد تک بڑھا دیے گئے ہیں۔لگتا ہے مریضوں سے نجات حاصل کر کے صحت مند قوم بنانے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔انصاف کا تقاضا تو یہی ہے۔ ٭٭٭٭٭