سکوں نہیں ہے میسر مجھے وطن میں کہیں دہک رہی ہے کوئی آگ سی بدن میں کہیں مجھے ہے حکم اذاں اور اس پہ ہے قدغن خدا کا ذکر نہ آئے مرے سخن میں کہیں یہ صرف میرا مسئلہ نہیں ہے۔ اکبر نے بھی تو کہا تھا کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں‘ سید ارشاد احمد عارف کا کالم دیکھ رہا تھا تو خیال آیا کہ آخر ہمارے ساتھ یہ ہو کیا رہا ہے۔ ہماری تعلیم کے ساتھ جو ہونے جا رہا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اکبر کے اس شعر کو بھی آپ کلیثے سمجھ کر نہیں دہراتے‘ ہم ایسی سب کتابیں قابل ضبطی سمجھتے ہیں کہ جن کو پڑھ کے بچے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں‘ ایسے ہی نہیں جاپان نے مکمل تباہی پر بھی امریکہ کے سامنے سرنڈر کرتے ہوئے ایک ہی بات منوائی تھی کہ ان کے تعلیمی نظام کو نہ چھیڑا جائے۔ چنانچہ انہوں نے راکھ سے تعمیر اٹھائی۔ ایک ہم ہیں کہ تعلیم ہمارا مسئلہ ہی نہیں جس کے دل میں جو آتا ہے وہ سلیبس سیٹ کرتا ہے اور پڑھائی شروع۔ کئی نظام بیک وقت چل رہے ہیں۔ یکساں نظام تعلیم جو کہ ایک مثبت سوچ ہے اور اعلیٰ اقدام ہے مگر اسے بھی ایک ایجنڈے کی تکمیل کے لئے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ بنیادی طور پر کچھ طاقتیں ہمارے تعلیمی نظام کو یکسر اپنے قالب میں ڈھالنا چاہتی ہیں وہ اس مقصد کے لئے قرض بھی دیتے ہیں اور انہوں نے اپنی این جی اوز بھی میدان میں اتاری ہوئی ہیں۔کون نہیں جانتا کہ ایک جرمن این جی او نے تو ہمارے ٹیکسٹ بک بورڈ میں ہی باقاعدہ اپنا کمرہ اس مقصد کے لئے رکھا تھا ، چند پبلشرز بھی اپنے مقصد کو پورا کرنے کے لئے رکھے تھے جنہیں اجارہ داری بخش دی گئی تھی۔ بیک جنبش قلم سینکڑوں پبلشرز کو منہا کر دیا گیا اور محب وطن قسم کے سلیبس سیٹ کرنے والوں کو سائیڈ لائن کر دیا گیا۔ زبیدہ جلال اور جاوید قاضی کا دور اسی ایجنڈا کی بازگشت ہے اور اس پر سراج الحق کا بیان بہت ہی واضح اور بلیغ ہے ان کا کہنا ہے کہ ملک کو سیکولر بنانے کے لئے عالمی ایجنڈے پر تیزی سے کام ہو رہا ہے۔ مزید یہ کہ اقلیت کی خوشی پر اکثریت کا گلہ گھونٹنا جمہوریت ہے اور نہ دانشمندی۔ایک سوال انہوں نے بہت اہم اٹھایا کہ کیا اشرافیہ کے لئے تشکیل نصاب کا کسی نے جائزہ لیا۔ وہاں تو این جی اوز اور مغرب زدہ لوگ کھل کھیل رہے ہیں۔ ایسے ادارے بھی موجود ہیں جہاں اردو بولنے پر پابندی ہے اور مزے کی بات یہ کہ مسلمان والدین بڑے فخر سے دوستوں کو بتاتے ہیں۔ حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے: اک بات کا رونا ہو تو رو کر صبر آئے ہر بات پہ رونے کو کہاں سے جگر آئے صورت حال بہت گھمبیر ہے۔ وہ شخصیات جو کہ ہمارے نظریات و عقائد کی رول ماڈل ہیں آخر ہمارے نصاب سے کیونکر نکالی جائیں؟۔ اس حوالے سے ایک اقبال کی مثال ہی کافی ہے کہ اسلامی تعلیمات اور شعور پر مبنی ان کا ایک ایک شعر مسلمانوں کو حوصلہ اور توانائی فراہم کرتا ہے۔ اہل مغرب کا لبادہ اتار کر انہیں ایکسپوز کرتا ہے۔ ان کی بات سے آپ انکار نہیں کر سکتے کہ وہ وقت کے حکیم اور سراپا دانش ہیں۔ دیکھیے اس ایک شعر میں: جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولہ نہیں کرتے مگر اہل مغرب کو ان کی جمہوریت کے راستے سے آیا ہوا اسلام بھی پسند نہیں۔ مصر کی مثال آپ کے سامنے ہے تو جناب اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ہماری شناخت اور پہچان مٹانا چاہتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ انہوں نے پہلے آہستہ آہستہ ایسا طبقہ یہاں پیدا کر لیا ہے کہ جو ان کے لئے زمین مہیا کرے۔ یہ میرا جسم میری مرضی اس کی قبیح صورت بھی آپ دیکھ چکے ہیں۔ حکومتیں بھی چونکہ انہی کی مرضی کی آتی رہیں اور انہوں نے اس طرف توجہ ہی نہیں دی یا پھر مجرمانہ اغماض برتا۔ خالد پرویز جو کہ اردو بازار کے صدر ہیں اور معراج خالد کے ساتھ مل کر یکساں نظام تعلیم کے لئے جدوجہد کرتے رہے ہیں‘ صاف کہتے ہیں کہ جو پیسے دیتے ہیں وہ اپنی تعلیمی پالیسیاں بھی ساتھ دیتے ہیں۔ یکساں نظام تعلیم کا تو ایک ڈھکوسلہ ہے۔ایسا کم از کم یہاں ممکن نظر نہیں آتا۔ اوپر کی سطح پر جہاں ڈالروں میں فیسیں لی جاتی ہیں وہ ان کی کب مانتے ہیں ان کی تاریں تو کہیں اور ملی ہوتی ہیں سیدھی سی بات ہے جو ہزاروں ڈالر اپنے بچے کے لئے دے رہا ہے وہ غریب غربا کے ساتھ نصاب سانجھا کیسے کر سکتا ہے۔ آج تک کوئی حکومت قائد اعظم کی خواہش اور ان کے فرمان کو عملی جامہ نہیں پہنا سکی کہ کم از کم اردو کو قومی زبان ثابت کر کے دفتری اور سرکاری زبان ہی بنوا دے دوسری بات یہ کہ سب کچھ آئین کہہ رہا ہے !کچھ فاطمہ قمر جیسے سر پھرے پھر بھی اردو کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ قومی شعور کے ساتھ وابستہ ہے اور بیورو کریسی کے ساتھ ساتھ کچھ ہماری انگریزی پسندی اس میں کام دکھا رہی ہے: کج انج وی راہواں اوکھیاں سن کج گل وچ غم دا طوق وی سی کج شہر دے لوگ وی ظالم سن کج سانوں مرن دا شوق وی سی بات یہ ہے کہ ہماری اسلامی ہستیاں جو کہ ہمارا تشخص اور کردار بناتی ہیں ہمارا اثاثہ ہے۔ انہیں بچانا ازبس ضروری ہے۔ یہ یکساں نظام تعلیم کے نام پر انہیں کارنر کر دینا ہمارے خلاف سازش ہے وہ ہمیں اپنے رنگ میں رنگنا چاہتے ہیں اور ہمارا تعلیمی ڈھانچہ بدل دینا چاہتے ہیں۔ ہمیں خود کو بھی بدلنا ہو گا کہ اپنے کردار کی طرف بھی ایک نظر کریں کہ جہاں کوئی شئے بھی خالص نہ ملتی ہو اور دھوکہ دہی عام ہو۔بڑے دکھ سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ ہم خود بھی کسی طرف سے اسلام کے عظیم ورثہ کے قابل دکھائی نہیں دیتے۔بنیادی بات یہ کہ ہم ایک آزاد ملک ہیں جسے اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا۔ پھر ہم اپنی مرضی کی تعلیم کیوں حاصل نہیں کر سکتے۔ ہمارا تصور تو اس دنیا تک محدود نہیں ہمیں مرنا بھی ہے اور جواب دہ بھی ہونا ہے۔ یہ ہمارا عقید ہ ہے گنہگار ضرور ہیں پر نبیؐ کی امت ہیں۔ترقی کرنی ہے تو ترقی کے قابل خود کو بنانا پڑے گا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ فرقہ بندیاں بھی ختم ہو جائیں اور سب اپنی پیارے نبیؐ کے لئے ایک پلیٹ فارم پر آ جائیں۔ وگرنہ مٹا دیے جائو گے اقبال کا پیغام یہی تو ہے: فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں