سپریم کورٹ نے جعلی اکائونٹس کیس کی سماعت کے دوران تفتیش کے لیے قائم جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کی رپورٹ میں نامزد زرداری گروپ، اومنی گروپ اور بحریہ ٹائون کے مالک ملک ریاض کی جائیدادیں منجمد کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس حکم کے احترام میں یہ گروپ اپنی جائیدادوں کی خریدوفروخت یا منتقلی نہیں کر سکیں گے۔عدالت عظمیٰ کی ہدایت پر جے آئی ٹی کی رپورٹ کمرہ عدالت میں پروجیکٹر کی مدد سے دکھائی گئی۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایک کروڑ 20لاکھ سے ایک کروڑ پچاس لاکھ تک کے اخراجات جعلی بینک اکائونٹس سے ادا کیے جاتے رہے ہیں۔ ایسے ہی جعلی اکائونٹ سے بلاول ہائوس کے پالتو جانور اور صدقے کے 28بکروں کے اخراجات بھی ادا کیے گئے۔ جعی اکائونٹس کا معاملہ 2015ء میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے علم میں آیا۔ پیپلزپارٹی کے سابق صوبائی وزیر شرجیل میمن اور کئی دوسرے رہنمائوں کے پاس سے بھاری رقوم برآمد ہوئیں۔ ابتدا میں تین بینکوں میں موجود 29 بے نامی اکائونٹس میں موجود رقم کا حجم 35ارب روپے بتایا گیا۔ حیران کن طور پر کئی ٹھیلے والوں اور محنت کشوں کے نام پر کھلے بینک اکائونٹس میں اربوں روپے کی موجودگی کی اطلاعات آتی رہی ہیں۔ اس سلسلے میں تحقیقات کا آغاز ہوا اور ایف آئی اے نے بینکار حسین لوائی کو گرفتاری کیا۔ اس کے بعد جعلی اکائونٹس کیس میں ہی اومنی گروپ کے چیئرمین انور مجید اور اس کے بیٹے عبدالغنی مجید کو گرفتار کیا گیا۔ حالیہ برس ستمبر کے پہلے ہفتے سپریم کورٹ نے سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کی بہن کی جانب سے مبینہ طور پر جعلی اکائونٹس کے ذریعے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کیے جانے کے مقدمے کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دی تھی۔ تین رکنی جے آئی ٹی نے آصف زرداری، فریال تالپور، حسین لوائی، عبدالغنی مجید اور ملک ریاض سے بعض تفتیشی نکات کی معلومات حاصل کر کے رپورٹ مرتب کی ہے۔ کسی ملک کا سیاسی نظام ایک دروازے کی حیثیت رکھتا ہے۔ قوم کے رہنما، اداروں کی کارکردگی اور قوم کی ترجیحات اسی دروازے سے گزر کر اپنی منزل تک پہنچتے ہیں۔ بدقسمتی سے سیاسی نظام کو اخلاقی اصولوں اور عالمی سطح پر تسلیم شدہ اقدار کی بجائے کسی ایک خاندان کے مفادات پر استوار کیا گیا۔ 1970ء سے قبل ملک میں عمومی طور پر بڑے زمیندار سیاست میں حصہ لیتے تھے۔ جو لوگ شہروں میں سیاست کرتے تھے ان کی پشت پر بھی کسی نہ کسی علاقے کی وراثتی جاگیر ہوتی۔ 1970ء کے انتخابات کے بعد قومی سیاست نے دو تبدیلیاں دیکھیں۔ سقوط مشرقی پاکستان کی صورت میں ایک انتباہ سامنے آیا جس نے سیاستدانوں، عام شہریوں اور اداروں کو اپنی سوچ بدلنے کا کہا۔ دوسری تبدیلی یہ آئی کہ سیاست میں دیہی پس منظر رکھنے والے افراد کی جگہ جدید سیاسی نظریات اور شہری زندگی کی معاشی و انتظامی ضروریات کو سمجھنے والے خاصی تعداد میں منتخب ہوئے۔ دونوں کا متوازن نقطۂ نظر بعد کے ہنگامی حالات میں بہہ نہ جاتا تو پاکستان کی سیاست قدرتی انداز میں ارتقاپذیر ہوتی۔ 1985ء کے عام انتخابات سے جمہوری عمل دوبارہ شروع ہوا مگر اس بار سیاست دانوں کی جگہ ذوالفقار علی بھٹو کے ستائے کارخانہ دار کاروباری افرادی اور افغان جہاد سے فیضیات ہونے والوں کی اکثریت پارلیمنٹ میں پہنچی۔ انتخابی عمل کو مہنگا کرنا، رضا کار کارکنوں کو ٹھیکوں، کمیشنوں اور نوکریوں کی شکل میں مراعات کی فراہمی عام ہو گئی۔ نہ کسی نے منتخب نمائندوں سے ذرائع آمدن کا پوچھا نہ ان میں سے جرائم کی سرپرستی کرنے والوں کے خلاف قانونی عمل کو طاقتور بنایا گیا۔ موجودہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) کی صورت گری اسی عہد میں ہوئی اور یہ عوامی جمہوری جماعتوں کی بجائے خاندانی وراثتی جماعتوں میں تبدیل ہو گئیں۔ یہ امر مایوس کن ہے کہ عوام کے منتخب نمائندوں اور اعلیٰ مناصب پر فائز شخصیات کی شہرت جرائم پیشہ کے طور پر ہو۔ پانامہ لیکس سکینڈل میں تین بار وزیر اعظم رہنے والے میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کے ایسے اثاثے سامنے آئے جن کی منی ٹریل عدالت میں پیش نہ کی جا سکی۔ عدالت عظمیٰ نے نیب کو مزید تحقیقات کرنے اور احتساب عدالت میں ریفرنس دائر کرنے کی ہدایت کی۔ اس طرح کے تین ریفرنسوں میں سے ایک میں نواز شریف کو بری کر دیا گیا جبکہ ایون فیلڈ میں ان کی سزا کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے معطل کر دیا جس کے خلاف نیب مزید کارروائی کر رہا ہے۔ العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کو سات سال قید اور بھاری جرمانہ کیا گیا ہے۔ نواز شریف اور ان کے رفقاء عدالتی عمل کو تاخیر کا شکار بنانے کی بھرپور کوشش کے ساتھ احتسابی عمل کو متنازع بنانے کے لیے بھی خوب بھاگ دوڑ کرتے رہے۔ دوسری طرف پیپلزپارٹی کی قیادت کی جانب سے احتساب کو سیاسی انتقام قرار دے کر تاثر دیا جا رہا ہے کہ اکائونٹس کا معاملہ قانونی نہیں۔ جس طرح میاں نواز شریف نے اپنی عدالتی پیشیوں کے موقع پر کارکنوں کو متحرک کرنے کی ہدایت کی اور چند دن پہلے آصف علی زرداری کی عدالت پیشی پر ان کی جماعت کے کارکن عدالت کے باہر جمع ہوئے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں جماعتوں کی قیادت اپنے اوپر الزامات کا قانونی انداز میں جواب دینے کی بجائے اسے حسب سابق ایک سیاسی دنگل بنانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ یقینا احتساب کا عمل یکطرفہ نہیں ہونا چاہیے۔ اگر حکومتی صفوں میں کوئی قانون شکن موجود ہے تو اس کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے لیکن سیدھے سادھے معاملات جن کی ٹھوس شہادتیں موجود ہوں انہیں سیاسی انتقام کہہ کر عوام کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونکی جا سکتی۔