’’ہمارے ایٹمی پروگرام سے متعلق طرح طرح کی باتیں ہوتی رہی ہیں‘الزامات بھی ہیں جن کو تسلیم کرتے ہوئے محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب پر پابندیاں لگا دی گئیں۔ان الزامات کے جواب میں‘میں بہت کچھ لکھتا رہا ہوں۔دراصل ہماری ایٹمی صلاحیت ہمارے دشمنوں کے دلوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتی ہے‘انہیں تکلیف ہوتی ہے تو بے ہودہ باتیں ان کی زبانوں پر آتی ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ 1971ء میں مشرقی پاکستان کو فتح کرنے کے بعد بھارت کو اپنی بالادستی کا اعلان کرنا مقصود تھا جس طرح سے امریکہ نے شکست خوردہ جاپان پر ایٹم بم گرا کے کیا تھا۔‘‘ ’’کوئی اور ہوتا تو شاید خاموش ہو جاتا لیکن وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ببانگ دہل اعلان کیا گیا کہ پاکستان ایٹمی توازن کو درست کرنے کے لئے ایٹمی صلاحیت حاصل کرے گا خواہ اسے کتنی ہی بڑی قربانی کیوں نہ دینا پڑے۔ایک مضبوط حکمت عملی کے تحت ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ٹاسک (Task)دیا گیا جنہوں نے کمال جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے وزیر اعظم کے حکم کی تعمیل پر کام شروع کیا۔حکم بڑا واضح تھا: ’’ڈاکٹر صاحب‘جہاں سے بھی اور جس طرح بھی آپ کو ایٹمی ٹیکنالوجی ملے حاصل کریں۔جو وسائل آپ کو چاہئیں وہ ہم دیں گے۔متعلقہ ادارے آپ کی مدد کو تیار ہیں۔براہ راست مجھ سے رابطہ رکھیے‘اللہ آپ کو کامیاب کرے۔‘‘ ’’اسی لمحے ڈاکٹر صاحب حصول مقصد کے لئے تن من دھن سے لگ گئے۔کوئی بھی ملک ایٹمی ہتھیار بنانے کی ٹیکنالوجی نہیں دیتا لیکن نیو کلیئر انڈر ورلڈ(Nuclear Underworld)ایک گمنام ادارہ ہے جہاں یہ ٹیکنالوجی ملتی بھی ہے اور بکتی بھی ہے اور یہاں سے ہی دنیا کے اور بہت سے خریدار اپنی اپنی ضرورت پوری کرتے ہیں۔فرق صرف یہ ہے کہ اس ٹیکنالوجی کو اکٹھا کر کے ایٹمی ہتھیار بنا لینے کا فن ہر ایک کے پاس نہیں ہوتا۔صرف ڈاکٹر خان صاحب جیسے برگزیدہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے یہ استطاعت عطا کی ہے ورنہ لیبیا جیسے کچھ ملکوں نے بھی یہ ٹیکنالوجی خرید لی تھی لیکن ایٹمی ہتھیار نہ بنا سکے۔ڈاکٹر خان صاحب کا دعویٰ ہے کہ 1976ء میں کام شروع کر کے انہوں نے 1984ء میں ایٹم بم بنا لیا تھا اور کولڈ ٹیسٹ بھی کر لیا تھا۔اس بات کی گواہی میں دے سکتا ہوں۔‘‘ ’’1987ء میں ‘میں وائس چیف آف آرمی سٹاف بنا اور ساتھ ہی مجھے نیو کلیئر کمانڈ اتھارٹی (NCA) کا ممبر بننے کا شرف حاصل ہوا۔اسی سال جولائی کے مہینے میں مجھے ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ لیبارٹریز کے دورے کی اجازت ملی ۔ڈاکٹر صاحب نے بذات خود اپنی تمام سہولتوں کا دورہ کرایا۔‘‘ ’’جنرل مشرف نے امریکی دبائو میں آ کر ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر الزامات لگائے۔ افغانستان کو فتح کرنے کے بعد 2004ء میں امریکہ نے ہمارے ایٹمی پروگرام کو نشانہ بنایا۔ سب سے پہلے ڈاکٹر خان صاحب پر الزام لگایا کہ انہوں نے ایران‘لیبیا اور دوسرے ملکوں کو ایٹمی ٹیکنالوجی دی ہے اور ثبوت میں وہ تصویریں اور شہادتیں دکھائیں جو ڈاکٹر صاحب اور ان کے ٹیم ممبران کے 1976ء کے بعد نیو کلیئر انڈر ورلڈ سے ٹیکنالوجی حاصل کرنے کی کوشش میں دوسرے ملکوں کے لوگوں سے تعلقات اور رابطے پر مبنی تھیں لیکن مشرف نے 2001ء کی بزدلی کے بعد دوبارہ گھٹنے ٹیک دیے اور سارا الزام ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب کے سر تھوپ دیا۔ٹی وی کے سامنے بلا کر ان کی توہین کی‘اختیارات واپس لے لئے اور انہیں اپنے گھر تک محدود کر دیا۔ اس وقت سے لے کر اب تک ڈاکٹر صاحب اپنی تمام تر صلاحیتوں کے باوجود اپنے گھر میں پابند ہیں اور حیرت اس بات پر ہے کہ بے نظیر اور نواز شریف دونوں نے ان کے لئے کچھ بھی نہ کیا اور نہ ہی اب عمران خان ڈاکٹر صاحب کی صلاحیتوں کو کسی تخلیقی عمل پر لگا سکتے ہیں۔‘‘ عام تاثر یہ ہے کہ ہمارے ایٹمی پروگرام پر اربوں ڈالر خرچ ہوئے ہیں جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔اگست 1987ء تک ایٹمی ہتھیار اور ڈیلیوری سسٹم کا تجربہ مکمل ہو چکا تھا تو جنرل ضیاء الحق نے ڈاکٹر صاحب کو پچھلے دس سالوں میں پروگرام پر جو اخراجات آئے تھے‘ان کی تفصیل NCAکے سامنے پیش کرنے کو کہا جو اسی ماہ پیش کر دی گئی۔‘‘ ’’حیرت کی بات تھی کہ وہ اخراجات جو ڈالروں میں تھے اور جو اخراجات پاکستان میں ہوئے تمام ملا کر بھی 300ملین ڈالر سے کم تھے۔یہ لاگت ہماری ایک سب میرین (Submarine) جو فرانس سے خریدی گئی ہے اس سے بھی کم ہے۔یہ استعداد حاصل کر کے پاکستان نے قابل اعتماد ڈیٹرنس (Deterrence)قائم کر لیا جس کا اعتراف بھارت کے وزیر دفاع نے 1998ء میں ان الفاظ میں کیا جب پاکستانی دھماکہ بھارت کے دھماکے سے زیادہ زور آور ثابت ہوا: '' Now perfect nuclear deterrence has been established between india and pakistan'' ’’ہمارا ایٹمی پروگرام اس لحاظ سے منفرد نوعیت کا ہے کہ وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 1975ء میں دنیا پر واضح کر دیا تھا کہ جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن بحال کرنے کے لئے پاکستان ہر حالت میں ایٹمی ہتھیار بنانے کی صلاحیت حاصل کرے گا اور محض دس سال کی قلیل مدت میں پاکستان نے یہ صلاحیت حاصل کر لی اور وہ بھی صرف 300ملین امریکی ڈالر سے کم کی لاگت سے۔‘‘ ’’عظیم سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ان کے رفقاء کی شبانہ روز کی انتھک محنت کے سبب 1984ء تک ہم نے ایٹمی ہتھیار بنانے کی صلاحیت حاصل کر لی تھی اور اس کے اگلے سال ہی ایٹمی ہتھیاروں کو ایف سولہ طیاروں کے ذریعے استعمال کرنے کے نظام کے تجربات کئے۔ہم نے 1996ء تک درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے میزائل استعمال کرنے کا نظام بھی وضع کر لیا تھا لیکن اس کے باوجود ایٹمی دھماکے نہ کرنے کی وجہ سے ہماری ایٹمی صلاحیت کے بارے میں ابہام موجود تھا۔ہماری خوش قسمتی تھی کہ 1998ء میں بھارت نے پانچ ایٹمی دھماکے کئے جس کا جواب پاکستان نے چھ زور دار ایٹمی دھماکوں کی صورت میں دیا جس سے ہماری صلاحیت دنیا پر واضح ہو گئی۔اس کے بعد پاکستان نے اپنی ایٹمی صلاحیت کے نظام کو یقینی بنانے کے لئے متعدد اہم اقدامات اٹھائے جن کی تفصیل درج ذیل ہے۔‘‘ ’’ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کے نظام کو مضبوط اور قابل اعتماد بنانے کے لئے مسلح افواج کے تینوں شعبوں میں ترقی و تحقیق کا ایک جامع پروگرام شروع کیا گیا: ٭ کم اور زیادہ طاقت کے حامل ایٹمی ہتھیار تیار کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کیاگیا۔ ٭ ہتھیاروں کی یقینی صلاحیت اور استعمال کے نظام کو بہتر اور موثر بنایا گیا اور وقفے وقفے سے تجربات کئے گئے تاکہ اس بات کا یقین کیا جا سکے کہ تمام شعبے کسی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لئے مکمل طور پر تیار ہیں۔ ٭ 2006ء تک کمانڈ اور کنٹرول کا ایک جامع نظام تشکیل پا چکا تھا جس سے ایٹمی مواد میں اضافے ‘ہتھیاروں کے نظام میں بہتری اور حاصل شدہ صلاحیت کے مطابق مسلح افواج کے شعبوں میں قوائد و ضوابط کو ضابطہ تحریر میں لا کر نظام کو مربوط بنایا گیا تاکہ تمام متعلقہ اداروں کے نظام اور ’’مخصوص ایٹمی ذمہ داریوں‘‘ میں ہم آہنگی پیدا کی جا سکے۔ ٭ انتہائی حساس نوعیت کی حامل ’’ایٹمی بٹن دبانے‘‘ کی پالیسی مرتب کی گئی تاکہ اس بات کا تعین کیا جا سکے کہ حتمی فیصلہ کرنے کا اختیار کس کے پاس ہو گا اور یہ بٹن کس کے ہاتھوں میں ہو گا۔‘‘جنرل(ر) مرزا اسلم بیگ کی کتاب ’’اقتدار کی مجبوریاں‘‘ سے اقتباسات۔