ڈیرہ غازی خان ادبی حوالے سے ایک زر خیز خطہ ہے یہاں پر چوٹی کے نامور شعراء آچکے ہیں ۔ جن میں فیض احمد فیض ، ساغر صدیقی سے لے کر احمد ندیم قاسمی اور احمد فراز شامل ہیں۔ ڈیرہ غازی خان میں 1958ء میں موجودہ کامرس کالج اور سابق گورنمنٹ کالج میں ایک آل پاکستان محفل شاعرہ منعقد ہوا تھا ۔ یہ ایک بہت بڑا مشاعرہ تھا اس کے بعد بھی بڑے مشاعرے ہوئے ان کا ذکر آگے آرہا ہے لیکن 1998ء میں جو محفل مشاعرہ اُس وقت کے ڈپٹی کمشنر اور ادبی شخصیت سید شوکت علی شاہ نے منعقد کرایا وہ آج تک یاد کیا جاتا ہے اس آل پاکستان محفل مشاعرہ میں احمد ندیم قاسمی ، احمد فراز ، مظفر وارثی ، نوش گیلانی ، محسن بھوپالی جیسے نامورشعرائے کرام نے شرکت کی تھی۔ سید شوکت علی شاہ جہاں بھی ڈپٹی کمشنر اور کمشنر تعینات ہوئے تو وہاں کی ادبی جمود کو ختم کر کے ایک ادبی شمع ضرور روشن کرتے رہے۔ اس بڑے مشاعرہ سے قبل ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر سید علی طاہر زیدی نے ایک بہت بڑا مشاعرہ آفیسرز کلب اور اب موجودہ جم خانہ میں منعقد کرایا تھا ۔ جس میں سٹیج سیکرٹری کے فرائض سید محسن نقوی اور ڈیرہ غازی خان کے نامور صحافی فیاض حیدری مرحوم نے سر انجام دیئے تھے ۔بلا شبہ اب وہ دور خواب کی مانند محسوس ہوتا ہے وہ لوگ اور وہ ادبی نگینے خاک ہو چکے ہیں کہ جن کی وجہ سے لاہور کی طرح ڈیرہ غازی خان کی ادبی فضا خوشگوار ہوا کرتی تھی۔ آج سے 30 برس پہلے مشاعروں کی روایت زندہ تھی۔ اُس زمانہ کے بیوروکریٹ ادبی سوچ کے مالک ہوا کرتے تھے ۔جوش ملیح آبادی کے شاگردِ خاص مصطفی زیدی ڈیرہ غازی خان میں 1962ء کی دہائی میں پولیٹیکل اسسٹنٹ ٹرائیبل ایریا تھے اور جب وہ فورٹ منرو میں قیام پذیر ہوا کرتے تو ادبی محفلیں بھی عروج پر ہوا کرتی تھیں ۔ آج 60 سال بعد بھی فورٹ منرو کی یہی کیفیت نظر آتی ہے جس کا میں خود عینی شاہد ہوں کہ ہر سال کی طرح اس سال بھی کچھ روز قبل فورٹ منرو میں جانا ہوا تو موسم کی خوشگواری اور جولائی میں 22 سینٹی گریڈ درجہ حرارت محسوس کر کے اندر کا رومانس جاگ اٹھا ۔وقت بھی کیا ظلم شے ہے کہ ہر چیز پہلے کی طرح ویسی کی ویسی ہے اور بنگلہ کہ جہاں پر مصطفی زیدی اپنی پیاری محبوبہ کی یاد میں محفلیں سجایا کرتے تھے یعنی پی اے ہاؤس جو اُن سے بھی قبل 1988ء میں انگریز ڈپٹی کمشنر نے بنوایا تھا وہ تھوڑی بہت بیرونی تبدیلی کے ساتھ ویسے کا ویسے کھڑا ہے اور یہ پی اے ہاؤس نہ جانے کتنے ا نگریز گورے افسروں سے لے کر ہمارے کالے انگریز افسر دیکھ چکا ہے اور وقت کے بے رحم سلسلے کو بڑی تیزی کے ساتھ گزرتا دیکھ رہا ہے انسان آرہے ہیں اور جا رہے ہیں لیکن عمارتیں ویسی کی ویسی کھڑی دیکھ رہی ہیں۔ اس پی اے ہاؤس فورٹ منرو میں جب 2012ء میں طارق بسیرا صاحب ڈیرہ غازی خان کے پولیٹیکل اسسٹنٹ تھے تو کچھ خوب صورت راتیں ہمیں بھی بسر کر نے کا موقع ملا تھا ۔ طارق بسیرا صاحب چونکہ ا دبی ذوق کے حامل بیوروکریٹ ہیں اس لیے انہوں نے بھی ڈیرہ غازی خان اور فورٹ منرو میں کچھ عرصہ ادبی فضا کو زندہ رکھنے کی کوشش کی انہی دنوں طارق محمود خان لودھی ڈیرہ غازی خان کے کمشنر تھے ۔طارق محمود خان لودھی صاحب بھی ایک صاحب مطالعہ اور ادبی شخصیت تھے۔ میرے مشورہ پر وہ ایک مشاعرہ کرانے پر تیا رہو گئے لیکن ایک بڑے شاعر سے جب ہم نے رابطہ کیا تو انہوں نے ہوائی جہاز کے ٹکٹ کے ساتھ بھاری معاوضہ بھی طلب کر لیا جس پر طارق محمود خان راضی نہ ہوئے اور یوں ہماری یہ حسرت پوری نہ ہو سکی لیکن اُن سے قبل ملک کے معروف دانشور بیورو کریٹ حسن اقبال ملک جو 2009ء میں کمشنر ڈیرہ غازی خان تھے تو انہوں نے ڈیرہ غازی خان کے ایک سو سال مکمل ہونے پر ایک ادبی جشن آرٹس کونسل حال میں منعقد کرایا جس میں سرائیکی اور اُردو کے بڑے شعرا ء سائیں احمد خان طارق ، ارشد سعید ، عزیز شاہد ، جمشید کمتر جبکہ اُردو کے شعراء میں کیف انصاری ، انجم صہبائی ، وحید تابش اور پروفیسر شریف اشرف نے خصوصی شرکت کی تھی اس محفل میں راقم الحروف نے بھی ایک خصوصی مقالہ پیش کیا تھا مرحوم سید آفتاب احمد شاہ جن کا تین ماہ قبل انتقال ہو چکا ہے وہ بھی 1981ء میں ڈیرہ غازی خان کے کمشنر تھے سید آفتاب احمد شاہ خود شاعر ہونے کے ساتھ مشاعرے کرانے کے بڑے شیدائی تھے انہوں نے بھی سید محسن نقوی مرحوم کے ساتھ مل کر 1983ء میں آل پاکستان محفل مشاعرہ منعقد کرایا تھا ۔ جبکہ فورٹ منرو میں بھی سید آفتاب احمد شاہ نے بڑی بڑی ادبی محفلیں منعقد کرائی تھیں جن میں پروفیسر شریف اشرف ، سید محسن نقوی ، کیف انصاری ، فیاض تحسین ،سعید علی طاہر زیدی ، وحید تابش ،انجم صہبائی بھر پور شرکت کیا کرتے تھے اس طرح ایک ادبی محفل کا انعقاد اگست 2003ء میں ہماری دعوت پر بھی کیا گیا کہ جب 3 اگست 2003ء کو پہلی کتاب بلوچ تاریخ کے آئینے میں کی تقریب رونمائی منعقد کی گئی ۔ 2 اگست کی شب لاہور سے ملک کے نامور صحافی اور کالم نگار محترم سید ارشاد احمد عارف کی قیادت میں ایک خوب صورت ادبی کہکشاں سر زمین فورٹ منرو میں اکٹھی ہوئی تھی اس خوب صورت ادبی کہکشاں میں معروف شاعر اور ادیب سعد اللہ شاہ عمران نقوی مرحوم ، غلام مصطفی خان میرانی اور دیگر ادبی لوگ شامل تھے فورٹ منرو میں 1983ء کے بعد یہ ایک بڑی ا دبی اور صحافتی محفل تھی ۔اس قسم کی ایک آخری محفل 2006ء میں فورٹ منرو میں ملک سلیم کوثر ایڈووکیٹ اور راقم نے منعقد کرائی تھی جس میں سابق وزیرا علیٰ سردار عثمان خان بزدار نے بھی خصوصی شرکت کی تھی اس محفل کے خصوصی مہمانوں میں بھی سید ارشاد عارف ، جبار مفتی اور آفتاب اقبال شامل تھے اور اب تو فورٹ منرو میں دس دس گھنٹوں تک لوڈشیڈنگ ہونے سے روشنی کا بھی فقدان ہو چکا ہے جیسے ہماری نوجوان نسل کا کتاب اور ادب سے رشتہ کا فقدان ہو چکا ہے خدا کرئے کہ وہ محفلیں اب دوبارہ منعقد ہو سکیں ۔