ایک جگنو ہی سہی ایک ستارا ہی سہی شب تیرہ میں اجالوں کا اشارہ ہی سہی ہیں ابھی شہر میں ناموس پر مرنے والے جینے والوں کے لئے اتنا سہارا ہی سہی اور پھر اک نہ اک روز اتر جائیں گے ہم موجوں میں اک سمندر نہ سہی اس کا کنارا ہی سہی۔آج مجھے دل کو خون کرنا ہے کہ تذکرہ عافیہ صدیقی کا ہے۔اٹھارہ جون کی شب اس قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے سلسلہ میں مرغزار گرائونڈ میں ایک کانفرنس منعقد ہوئی۔ میرے لئے حیرت و انبساط کا باعث ہاں ہزاروں لوگوں کا مجمع تھا صد شکر کہ آج بھی مسلمانوں کے دلوں کے اندر ایمان کی شمع فروزاں ہے۔ سٹیج کے عقب میں جہازی سائز کا پورٹریٹ آویزاں تھا جس پر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کانفرنس لکھا تھا ساتھ ہی ایک لائن تھی مجھے اس جہنم سے نکالو۔ مجھے عافیہ صدیقی پر لکھی ہوئی اپنی ایک نظم کا آخری شعر یاد آ گیا: یہ کربلا کا سفر ہے جو اب بھی جاری ہے کہ ایک شخص یہاں لشکروں پہ بھاری ہے لوگوں کا یہ جم غفیر پاکستانی عوام کے دلوں کی ترجمانی کر رہا تھا کہ وہ اپنی بہن اور بیٹی کو ہرگز نہیں بھولے۔یہ تو حکمران ہی بے حس ہیں جو اقتدار میں آتے ہیں عافیہ کی رہائی کے لئے کیے وعدے طاق نسیاں میں رکھ دیتے ہیں۔ میں کانفرنس کا حال تو بعد میں بیان کروں گا پہلے میں سینیٹر مشتاق احمد خاں کے بیان پر بات کر لوں جس میں انہوں نے ہمیں ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے ملاقات کا حال بتایا جو حال ہی میں انہوں نے ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اور عافیہ کے وکیل کے ساتھ مل کر کی۔ان کی گفتگو اس کانفرنس کامغز تھی لوگ ہمہ تن گوش درد و الم سے بھری اس داستان غم کو سنتے رہے سیف یاد آ گئے: کوئی ایسا اہل دل ہو کہ فسانہ محبت میں اسے سنا کے روئوں وہ مجھے سنا کے روئے اس کی بنیاد وہی محبت جو ایمان کی محبت ہے جس سے اللہ پیار کرنے والے اپنے بندوں کے دلوں کو مزین کرتا ہے انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے ہمارا رشتہ خون کے رشتے سے بھی زیادہ قیمتی ہے کہ یہ اللہ اور اس کے رسولؐ کی رضا پر اساس کرتا ہے۔ وہ فرمانے لگے کہ عافیہ صدیقی کی ملاقات سے ان پر عجیب کیفیت پیدا ہوئی کہ وہ اپنی ماں کی وفات پر بھی اتنا نہیں روئے جتنا اس صدمہ پر گریہ زاری کرتے رہے۔عافیہ صدیقی کے چہرے پر ایک نور تھا نور کا ہالہ تھا۔ ایک دیوار میں شیشہ تھا اور فون کے ذریعہ وہ بات کر سکتے تھے عافیہ نے انہیں سورۃ مریم سنائی کہ اس سے وہ حوصلہ اور صبر کشید کرتی ہیں۔ساڑھے تین گھنٹے کی ملاقات تھی عافیہ صدیقی نے اپنے بیٹے سلمان کے بارے میں پوچھا یہ سب سے چھوٹا بیٹا تھا جو چھ ماہ کا تھا اس کا اب تک کچھ معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ زندہ ہے یا نہیں۔ دوسرے بچے احمد اور مریم ماشاء اللہ فوزیہ صدیقی کے زیر نگرانی ڈاکٹر بن چکے چونکہ انہیں کچھ بھی بتانے کی اجازت نہیں تھی یہ لوگ تصویریں لے کر گئے مگر اجازت نہیں تھی کہ دکھا سکیں۔انسان سوچنے لگتا ہے کہ امریکی اتنے سفاک ہیں عافیہ کی والدہ محترمہ کے بارے میں بھی نہیں بتا سکتے تھے کہ وہ دنیا میں نہیں رہیں۔ سینیٹر مشتاق احمد خاں بتانے لگے کہ وہ سوچتے ہیں کہ ان کی سب سے چھوٹی بیٹی عافیہ صدیقی کی طرح حافظہ ہے۔اگر اس کے ساتھ یہ معاملہ پیش آتا تو میں اس کے لئے مر نہ جاتا۔ان کے جذبات کی شدت کوئی صاحب دل ہی محسوس کر سکتا ہے۔سینیٹر صاحب نے عافیہ کو یونس علیہ السلام والی دعا پڑھائی تو خود ہی پڑھنے لگی آپ جانتے ہیں کہ عافیہ تو بہت ہی علم رکھنے والی خاتون ہیں۔ یہی علم تو امریکیوں کو نہیں بھایا کہ یہی تو اس کا قصور تھا کہ وہ اہل مغرب کو اسلامی تعلیم کا سبق دے رہی تھی وہ ان کی تقاریب میں قرآن کا سٹال لگاتی جیلوں میں جا کر قیدیوں کو تبلیغ کرتی وہ ایک ایجوکیشن پالیسی مسلمانوں کو دینا چاہتی تھی کہ ہر علم کی بنیاد اسلامی تعلیمات کو بنایا جائے۔ حتیٰ کہ سائنس کی بھی یہی بنیاد ہے وہ خاتون تھی کہ اللہ نے اسے بہت ہی ذرخیز ذھن عطا کیا تھا۔میں یہاں تذکرہ کرتا چلوں کہ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کے ساتھ اس تحریک میں میں بھی ہوں عافیہ صدیقی کی رہائی کے لئے کراچی مجھے بھی فوزیہ صدیقی نے بلایا تھا میں عافیہ کے گھر ان کی والدہ سے بھی ملاقات کی اور بہت سی باتیں کیں کیا بہادر خاتون تھیں احمد اور مریم سے بھی باتیں ہوئیں فوزیہ صدیقی صاحبہ نے لاہو ر میں عافیہ صدیقی کے وکیل سے بھی ملوایا جو بڑی شدومد سے بتاتا تھا کہ پاکستانی حکومت ہی نہیں چاہتی کہ عافیہ کو رہائی ملے کہنے کے لئے بہت کچھ ہے۔ لوگوں کو علم ہونا چاہیے کہ عافیہ صدیقی کی تعلیم امریکی یونورسٹی کی ہے انہوں نے امریکہ سے ہی ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی ۔ یہ جو ہیرے سمگلنگ اور دوسرے فضول الزامات ہیں سب لغو ہیں ان کی شہریت بھی امریکی نہیں تھی یہ سراسر امریکہ اور پاکستان کی حکومتوں کا پراپیگنڈہ تھا یہ بات سینیٹر مشتاق احمد خان نے تحقیق کے بعد بتائی۔ انہوں نے اپنے خطاب میں ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی بہت تعریف کی کہ وہ دھان پات کی عورت اپنا گھر بھی سنبھال رہی ہے مصروف ترین ڈاکٹر بھی ہے۔ عافیہ صدیقی کی رہائی کے لئے بیس سال سے تحریک چلا رہی ہے اللہ نے انہیں بہت مضبوط عصاب دیئے ہیں والدہ کی وفات کے بعد بس وہی سب کچھ سنبھال رہی ہیں اس پر بھی انہیں دھمکیاں آتی ہیں۔بس یہی تو حق و باطل کی آمیزش ہے۔میں تو بنفس نفیس ان کی کوششیں دیکھ چکا ہوں کہ وہ اس مقصد کے لئے کس کس کو نہیں مل چکیں۔یوں تو نواز شریف نے بھی ان کی والدہ کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا تھا کہ وہ پوری کوشش کریں گے مگر یہ حکمران اپنے مفاد سے آگے نہیں سوچتے۔ اس کانفرنس میں نمایاں سطح پر جماعت اسلامی ہی تھی۔ مرغزار کالونی کے ہر دلعزیز صدر چوہدری محمد شہزاد چیمہ روح و رواں تھے۔ جماعت اسلامی کے رہنما محمد شفیق ملک نے نہایت دانشمندی سے پروگرام کو چلایا۔