صدر جو بائیڈن نے امریکہ کے صدر کی حیثیت سے مشرق وسطیٰ کا اپنا پہلا دورہ 13-16 جولائی 2022 کو کیا ہے، جس میں اِسرائیل اور سعودی عرب کا دورہ کیا ہے، جہاں انہوں نے اِسرائیل کے نگراں وزیراعظم یائر لاپڈ اور سعودی بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز اور سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان جنہیں عرف عام میں MbS کہا جاتا ہے، سے ملاقاتیں کی ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق بائیڈن کے دورے کے نتیجے میں توانائی، مواصلات، خلائی اور صحت کی دیکھ بھال سمیت شعبوں میں شراکت داری کے 18 معاہدوں پر دستخط ہوئے۔ سعودی سرکاری نیوز اِیجنسی (ایس پی اے) کے مطابق اِن معاہدوں میں کلین انرجی پروجیکٹس، نیوکلیئر انرجی اور یورینیم کے ساتھ ساتھ امریکی اَیرو اسپیس اور ڈیفنس فرموں بوئنگ اور ریتھیون اور ہیلتھ کیئر کمپنیوں میڈٹرونک، ڈیجیٹل ڈائیگنوسٹکس اور آئی کیو وی آئی اے کے ساتھ معاہدے شامل تھے۔اَمریکی صدر کا سعودی عرب کا دورہ ریاض کے ساتھ واشنگٹن کے تعلقات کو بحال کرنے کی کوششوں کے دوران ہوا ہے خصوصاً جب دنیا یوکرائن کی جنگ کی وجہ سے توانائی کے بڑھتے ہوئے اخراجات سے دوچار ہے۔ سعودی عرب دنیا کے سب سے بڑے تیل پیدا کرنے والے ممالک میں سے ایک ہے۔ توانائی اور سلامتی کے مفادات نے صدر اور ان کے معاونین کو سعودی مملکت کو الگ تھلگ نہ کرنے کا فیصلہ کرنے پر اکسایا ہے، جو دنیا کا سب سے بڑا تیل برآمد کنندہ اور علاقائی پاور ہاؤس ہے جبکہ روس اور چین کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنا رہا ہے۔ عالمی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ توانائی کی دلچسپیوں نے بائیڈن کو سعودی عرب کا دورہ کرنے پر مجبور کیا ہے۔ امریکی صدر بائیڈن کے مشرق وسطٰی بالخصوص سعودی عرب کے دورے کے فوری اور طویل المدتی مقاصد کیا ہیں؟ یہ وہی جو بائیڈن ہیں،جنہوں نے 2019 میں صدارتی مہم کے دوران سعودی عرب کو عالمی سطح پر ’Pariah‘ یعنی اچھوت بنانے کا تبصرہ کیا تھا اور امریکی صدر منتخب ہونے کے بعد بھی سعودی عرب میں انسانی حقوق کی صورتحال پر تنقید کرتے رہے ہیں۔ مشہور اَمریکی اَخبار واشنگٹن پوسٹ میں 9 جولائی 2022 کو شائع ہونے والے "میں سعودی عرب کیوں جا رہا ہوں" کے عنوان سے ایک مضمون لکھتے ہوئے، امریکی صدر نے اپنے سعودی عرب کے دورے کے مقاصد کی مندرجہ ذیل الفاظ میں وضاحت کی ہے کہ "ایک زیادہ محفوظ اور مربوط مشرق وسطیٰ امریکیوں کو کئی طریقوں سے فائدہ پہنچاتا ہے۔ اس کے آبی راستے عالمی تجارت اور سپلائی چین کے لیے ضروری ہیں جن پر ہم انحصار کرتے ہیں۔ یوکرائن میں روس کی جنگ کے عالمی رسد پر پڑنے والے اثرات کو کم کرنے کے لیے اس کے توانائی کے وسائل بہت اہم ہیں"۔ مشرق وسطیٰ کے خطے کے بارے میں اپنے نقطہ نظر کا جواز پیش کرتے ہوئے وہ مزید استدلال کرتے ہیں کہ "ایک ایسا خطہ جو سفارت کاری اور تعاون کے ذریعے اکٹھا ہو رہا ہے،تنازعات کے ذریعے الگ ہونے کے بجائے۔اس میں پرتشدد انتہا پسندی کو جنم دینے کا امکان کم ہے جس سے ہمارے وطن کو خطرہ ہے یا نئی جنگیں ہو سکتی ہیں جو امریکی فوجی دستوں اور ان کے خاندانوں پر نیا بوجھ ڈال سکتی ہیں"۔بائیڈن کے دورہ سعودی عرب کے چار بنیادی مقاصد ہیں: ایران کو گھیرنے کے ساتھ ساتھ عرب ممالک کو اس کے خلاف متحد کرنا، ان کے پیشرو ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے شروع کیے گئے ابراہیم معاہدے کے پس منظر میں عرب دنیا کے ساتھ اسرائیل کے روابط کو بہتر بنانا، اور امریکہ کو ان کا مضبوط اِتحادی بنانا، مشرق وسطیٰ میں کوئی خلا پیدا نہ کرتے ہوئے چین کو عرب دنیا میں اپنی پوزیشن بہتر بنانے کا ہرگز موقع نہ فراہم کرنا، اور مشرق وسطیٰ میں روس کے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے بہترین ممکنہ پوزیشن سنبھالنا۔ بائیڈن انتظامیہ معمول پر لانے والے معاہدوں میں اپنی جانب سے اضافہ کرنا چاہتی ہے، جسے "ابراہام ایکارڈز" کے نام سے جانا جاتا ہے، جو سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے شروع کیا گیا اِیک ایسا عمل ہے جس کے تحت اسرائیل نے متحدہ عرب امارات، بحرین، مراکش اور سوڈان کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے۔بائیڈن اور اسرائیل کے لیے، سعودی عرب کے ساتھ معاہدہ حتمی پیش رفت ہوگی۔ بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ منامہ اور ریاض کے درمیان قریبی تعلقات کو دیکھتے ہوئے بحرین کا اِسرائیل کے ساتھ معاہدہ، سعودی عرب کی جانب سے گرین سگنل کے بعد ہی ہو سکتا تھا۔ اگر سعودی عرب دوسرے عرب یا مسلم اتحادیوں اور ریاض کے شراکت داروں کو اسرائیل کے ساتھ معمول پر لانے کی اجازت دیتا ہے تو ابراہم معاہدے میں توسیع کے اِمکانات زیادہ ہونگے۔ سعودی عرب کے ساتھ اِسرائیل کے تعلقات کا معمول پر آنا، یا مکمل سفارتی تعلقات کے قیام کے بغیر تعلقات میں اضافہ، اِن عرب ریاستوں پر اِنتہائی مثبت اثر ڈالے گا جو پہلے ہی تعلقات کو معمول پر لا چکے ہیں۔ اِیک اور اَہم پیشرفت جو سعودی عرب اور اسرائیل کے قریبی تعلقات کی نشاندہی کرتی ہے وہ ہے بحیرہ احمر کے جزائر تیران اور صنافیر کو مصر سے سعودی عرب منتقل کرنے کے لیے تل ابیب کا اَپنا اِعتراض واپس لینا۔ اِس قدم کے اہم مضمرات ہیں کیونکہ اِس معاہدے کے تحت سعودیوں کو واشنگٹن سے وعدہ کرنا ہوگا کہ وہ 1979 کے مصر اسرائیل اَمن معاہدے کی شرائط پر عمل کریں گے، بشمول آبنائے تیران میں اسرائیلی جہازوں کے لیے آمدورَفت کی آزادی کو برقرار رکھنا۔ اگرچہ یہ پیشرفت سعودی عرب کو "اَبراہم معاہدے" میں شامل نہیں کرتی، لیکن یہ اِس جانب اِشارہ دیتی ہے کہ کس طرح ریاض اور تل ابیب مرحلہ وار ڈی فیکٹو نارملائزیشن کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ دوسری طرف، بائیڈن کا مشرق وسطیٰ میں اَپنے دو اَہم اِتحادیوں اِسرائیل اور سعودی عرب کا دورہ، ایران پر اَمریکی توجہ کی عکاسی کرتا ہے اور خطے میں اِیران کے اَثر و رَسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے اقدامات کی حمایت کا وعدہ کرتا ہے۔