جب روم جل رہا تھا تونیرو بانسری بجا رہا تھا تو شاید اہل روم بھی نئے سال پر ایک دوسرے کو نیا سال مبارک کہہ رہے ہوں گے۔ ہلاکو جب بغداد کو تاخت و تاراج کرکے چلا گیا تو وہاں پھیلی فروعات کی رو سے نیا سال مبارک کی صدائیں چار سو گونج رہی ہوں گی۔ دجلہ کا پانی خوں رنگ تھا۔ پانی خون آلود بھی تھا اور علم کی سیاہی سے سیاہ رنگ بھی۔ آج کا دور ہوتا تو لائبریریاں نہ ہوتیں رئیل اسٹیٹ کے دفتر ہوتے۔ اگر اس وقت اینڈرائیڈ موبائل ہوتے توبغداد تباہ ہوگیا تو کیا۔ سب وٹس ایپ پر ، ہیپی نیو ائیر ۔۔۔ ہیپی نیو ائیر پکار رہے ہوتے۔ 1757ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی سارے ہندوستان پرقابض ہوگئی ۔ ان کا نیا سال اور اس کی ابتدا کیسی رہی ہوگی؟ 1857ء کی ناکام جنگ آزادی کے بعد سو سال سسکنے والے مسلمانوں کا اس پوری صدی کا ہر سال بھی تو ہیپی نیو ائیر ہوتا ہوگا؟ ہو سکتا ہے وہ ڈیپریس ہوں اور مایوس بھی یا آج کی طرح اُن میں بے شمار ڈھٹائی اور ڈھیٹ پن ہو۔ 1947ء میں جسموں ، عزتوں اور اموال کی قربانیاں دے کر جب قافلے پاکستان پہنچے ہوں گے تو ان کی نیو ائیر ریزولوشن تو ظاہر ہے نیا ملک ، نئی قرارداد ، نئے عزائم اور نئی امیدیں ہی ہوں گی۔ خوشی کا کوئی سبب نہیں ۔ سوچنے اور مسلسل سوچنے کا مقام ہے۔ دور دور تک وطن ، ریاست، حکومت اور سیاست کا کیا ذکر، سوسائٹی بھی بڑی دردناک حالت میں ہے۔ جھوٹ، تضاد ، منافقت ، ریاکاری ، ناانصافی اور بدصورتیاں ہم سب کے ماتھے پر جھومر بن کر دمک رہی ہیں ۔ مگر ہم ٹھہرے حال مست ، مال مست لوگ ، میڈیا پر اور سوشل میڈیا پر۔ اہل بغداد کی طرح یا شاید اہل روم کی طرح ہم سب اور ہی کھیلوں میںمصروف ہیں۔ عربی مقولہ ہے وقت ایک تلوار ہے اور قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ ہم میں سے ہر کوئی اپنے عمل کے ہاتھوں گروی ہے۔ ہم سب کس تیزی سے وقت کی ڈھلوان پر مسلسل پھسل رہے ہیں اور پوری قوم خود غرضی کے حصار میں اس قدر گرفتار ہے کہ کوئی بھی ایک دوسرے کے ساتھ نہیں۔ عالمی معاشی نظام کے کارپوریٹ کلچر نے سب کو اپنی اپنی ڈال دی ہے۔ کارل مارکس کا فلسفہ ٔ بیگانگی اپنی پوری طاقت سے ہم پر حملہ آور ہے ۔ رشتے ، جذبے ، ہمدردی ، خلوص ، وفا ، دوستی ، احساس، بھائی چارہ اور قربت سب معاشی جبر کی بھینٹ چڑھ گیا۔ جب انسانی احساس بڑے بڑے کارپوریٹ نظاموں کے ہاتھوں معدوم اور تحلیل ہوتا ہے تو ہر فرد کا مطمع نظر معاشی خوشحالی معاشی تحفظ ہوتا ہے۔ ایسے معاشروں میں امیر ، امیرتر اور غریب ، غریب تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ ایسی سوسائٹی میں کامیابی کا معیار صرف اور صرف ایک ہوتا ہے ۔۔۔ہر قیمت پر معاشی خوشحالی۔ اس کے لیے کسی بھی اخلاقیات اور انسانیت کو خاطر میں نہیں لایا جاتا۔ ایک سرائیکی شاعر کی بات یاد آتی ہے ۔ قبر کی دیواروں میں کھڑکیوں کے کیا معنی ؟گندگی کے ڈھیروں پر تتلیوں کے کیا معنی؟ ایسے معاشرے کیسے ہوتے ہیں ؟ فائیو سٹار ہوٹلز ، پرائیویٹ پارٹیاں ، میک اپ میں لتھڑے بدصورت لوگ ، کھوکھلے قہقہے اور دوسری جانب کسی بس سٹاپ کے اندر شدید سردی میںادھورے بستروں میں ٹھٹھرتا کانپتا سارا خاندان بلکہ خاندان ہی خاندان ۔ یہ سوسائٹی نہیں ۔۔پیاز ہے ۔ چھلکے اتارتے جائو ، ہر تہہ پر ایک نیا رنگ نظرآئے گا۔ جھوٹ ، منافقت ، ریاکاری ، خودغرضی، مصنوعی ہمدردی ، خود نمائی اور کمینہ پن ۔ دوستو وِسکی کہا کرتا تھا ایک ملک میں کئی ملک ہوتے ہیں یا یوں کہ ایک بستی میں کئی بستیاں ہوتی ہیں۔ مشرقین اور مغربین جتنا جناتی فاصلہ ہے۔ ہم بلا سوچے سمجھے ویسٹ کے ہیپی نیو ائیر کی کاپی کرتے ہیں اور ایسٹ کی پولیس کی طرح ایک جماعت اسے روکنے کی کوشش کرتی ہے ۔ بالکل بے معنی اور بے سمت مشق ہے ۔ ویسٹ کی ترقی ، اُن کا عروج ، اُن کے ادارے اور اُن کے رویے کسی ایک دن نہیں ، صدیوں کی ریاضت کا حاصل ہیں۔ ہم بیوقوفوں کی طرح اُن کے ظاہر کو کاپی کرتے ہیں مگر ہمارا باطن ۔۔۔الامان والحفیظ ۔ 74 سال گزر گئے مگر ہم وہیں ہیں ۔ انگریز کے فدوی اور غلام ۔ اپنے ہم وطنوں کے آقا اور بادشاہ ۔ سیڑھی کے ہر پائیدان پر بیٹھا ہوا پاکستانی اپنے سے اوپر والے کا بے سوال غلام ہے اور نچلے سٹیپ پر بیٹھے ہوئے کا بے جواب آقا ۔ ہم اسلامی بھی ہیں اور جمہوریہ بھی ۔ مگر اس ڈش میں اتنے لوازمات ڈالے گئے کہ ہنڈیا ہی خراب ہو گئی۔ ہمارے ہاں مہنگے ترین انگریزی میڈیم سکول بھی ہیں اور پرانے سٹائل کے سرکاری سکول بھی اور یہیں کہیں مدرسہ نظامیہ کے بچے اور اساتذہ بھی ہیں۔ اسی کو کہتے ہیں ایک بستی میں کئی بستیاں اور تلاش کرتے ہو قومی یکجہتی ؟ ان سب کے رنگ ، انگ، ڈھنگ ، فکر ، سوچ اور اپروچ ایک دوسرے سے ہزاروں میل دور ہے۔ کیا لکھوں اُن بستیوں کا جہاں استاد سوسائٹی کی لسٹ میں پچاسویں نمبر پر ہو اور ان پڑھ رئیل اسٹیٹ ڈیلر پہلے نمبر پر ۔ جس جگہ پر آبادی صرف اس لیے بار بار بڑھتی جائے کہ جس نے اسے روکنا ہے وہ ڈرتا ہو،کس سے ؟ یہ بات پھر سہی۔ اِن عریاں حقیقتوں اور زخمی سچائیوں کے پہلو میں کہاں کا نیا سال ، کون سا نیا سال ؟ آج 2022ء کی آمد آمد ہے ، کل کبھی 2021ء کی آمد آمد تھی ۔کیا کھویا ؟ کیا پایا؟ کیا 2022ء میں کوئی ایسا معجزہ ہونے جارہا ہے جو ہمارے ماضی ، حال اور مستقبل کو یکسر بدل دے گا؟ ایک پاکستان جہاںفوڈز، شاپنگ مالز، جیولری ، ڈیزائنر ڈریس ، گاڑیاں اور اُن کے ماڈلز ، ہائوسنگ سوسائٹیاں اور پھر ایک اور پاکستان جہاں اوڑھنے کو رضائی نہیں ۔ سونے کو بستر نہیں ۔ شادی کو جہیز نہیں ، سر پر چھت نہیں، پائوں کے نیچے زمین نہیں، تعلیم کے پیسے نہیں اور دینے کو بل نہیں ۔ آئیے مل کر خود سے جھوٹ بولیں مگر یہ کون ہمیںبار بار کچوکے لگا رہا ہے ؟ میں کانوں پر ہیڈ فون لگاتا ہوں ۔ آنکھیں سکرین پر فوکس کرتا ہوں اور کہتا ہوں ’’ہیپی نیو ائیر‘‘۔