پاکستان کی معیشت کو قرضوں کی جکڑ بندیوں سے نکلنے کے صرف تین راستے ہیں: پہلا یہ کہ عالمی مالیاتی قوتوں کے سامنے سرِتسلیم خم کر دیا جائے اور جو کچھ اس ملک میں صنعت و زراعت یا معدنیات کی صورت موجود ہے، اسے ان کے حوالے بھی کیا جائے اور عوام کا خون نچوڑ کر قرضے بھی ادا کئے جائیں۔ ان عالمی مالیاتی قوتوں کا نمائندہ، آئی ایم ایف اس وقت پاکستان کو یہی راستہ اختیار کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔ تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ جس ملک نے بھی یہ راستہ اختیار کیا، وہ زندگی بھر قرض کے شکنجے سے باہر نکل سکا اور نہ ہی اس کی معیشت نے کبھی ترقی کی۔ آئی ایم ایف کی بنیادی شرط ’’آزاد معیشت‘‘ (Liberalising the Economy) ، ایسی ہے جو کسی بھی ملک کی زراعت، صنعت اور معدنیات پر اس کا ریاستی اختیار ختم کرواتی ہے اور پھر دُنیا بھر کے سرمایہ کار ان تینوں وسائل پر قبضہ کر لیتے ہیں۔ دوسرا راستہ، قومی سطح پر نادہندگی کا اعلان (Sovereign Default) ہے۔ اس راستے کو دُنیا کے بے شمار ملکوں نے اختیار کیا اور آج ان کی معیشتیں مضبوط بھی ہیں اور وہ ملک بھی مستحکم ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال آئس لینڈ کی ہے جس کی معیشت 2008ء کے معاشی بحران کا جھٹکا نہ سہہ سکی اور مکمل طور پر تباہ (Collapse) ہو گئی۔ آئس لینڈ، بینکوں کی سودی معیشت اور اس کی تباہ کاریوں کی خوفناک مثال ہے۔ آئس لینڈ کی معیشت اور سیاست دونوں پر یہ بینکار چھائے ہوئے تھے۔ پوری کی پوری پارلیمنٹ بینکوں کی یرغمال تھی۔ ان بینکوں نے پہلے ہالینڈ اور انگلینڈ سے 15 فیصد شرح سود پر بڑے بڑے قرضے حاصل کئے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ 1994ء سے 2008ء تک آئس لینڈ کی کرنسی مضبوط تھی اور لوگ منافع کی لالچ میں ایسا کرتے تھے۔ ضرورت سے زیادہ قرضے لینے کی وجہ سے افراطِ زر میں اضافہ ہوا۔ پراپرٹی کی قیمتیں آسمان پر جا پہنچیں۔ پراپرٹی کا کام کرنے والوں کی چاندی ہو گئی اور وہاں بھی پاکستان کی طرح کئی ’’ملک ریاض‘‘ پیدا ہو گئے۔ 2003 ء سے لے کر 2006ء تک آئس لینڈ کی معیشت خلائی راکٹ کی طرح پرواز کرتی رہی۔ ان بینکاروں نے تقریباً اس غیر ملکی دولت کے ایک سو ارب ڈالر سے غیر ملکی کمپنیوں میں سرمایہ کاری کی، پراپرٹی خریدی یہاں تک کہ فٹ بال کی ٹیموں پر بھی سرمایہ لگایا۔ اس طرح کی سرمایہ کاری نے ملک میں ایک مصنوعی خوشحالی کا ماحول پیدا کر دیا، بالکل ویسے ہی جیسے زرداری ، نواز شریف اور بے نظیر کی حکومتوں میں پاکستان میں ہوا تھا۔ یہ اتنی بڑی سرمایہ کاری تھی کہ اس کے مقابلے میں آئس لینڈ کی جی ڈی پی جو 17.8 ارب ڈالر تھی ،وہ اس کا صرف پانچواں حصہ بھی نہیں تھی۔ اس مصنوعی خوشحالی کا سامنا جب 2008ء کے عالمی معاشی بحران سے ہوا تو یہ ایک دَم دھڑام سے گر گئی۔ وزیر اعظم گیئر ہارڈے (Geir Haarde) بھاگم بھاگ آئی ایم ایف جا پہنچا اور 2.1 ارب ڈالر حاصل کر لئے تاکہ مزید قرض لے کر معیشت کو بچایا جائے، لیکن معیشت کو بچایا نہ جا سکا۔ ساڑھے تین لاکھ لوگوں کا ملک اور 62 ارب ڈالر کا قرضہ۔ بینکوں نے دیوالیہ ہونے کا اعلان کر دیا۔ ایک ہفتے میں کرنسی کی قیمت آدھی رہ گئی۔ بیرونی سرمایہ کار بھاگ گئے اور سٹاک مارکیٹ 95 فیصد نیچے گر گئی۔ عوام پارلیمنٹ کے سامنے جمع ہوئے، اس کا گھیرائو کیا۔ ملکی آئین جو سراسر بینکوں کا تحفظ کرتا تھا اس کو بدلنے کا مطالبہ کیا، ریفرنڈم کرایا گیا، عوام نے دو تہائی اکثریت سے آئین کو بدلنے کے حق میں ووٹ دیئے۔ عوام یہاں تک نہیں رُکے بلکہ انہوں نے پھر یہ مطالبہ کیا کہ ہم ان سیاست دانوں سے اپنا آئین نہیں بنوائیں گے، کیونکہ یہ سب بینکاروں کے خریدے ہوئے ہیں۔ یونیورسٹی کے پروفیسروں اور بڑے بڑے ماہرین کی ایک ٹیم منتخب کی گئی، جنہوں نے ملک کا آئین مرتب کیا۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے سے مداخلت کی کوشش کی، جسے عوام نے بُری طرح مسترد کر دیا۔ اس نئے آئین کے تحت الیکشن ہوئے۔ ملک دیوالیہ ہو چکا تھا۔ تمام بینکوں کو قومی ملکیت میں لے لیا گیا۔ ملک سے سرمایہ باہر لے جانے پر پابندی لگا دی گئی۔ عوام سے کہا گیا کہ وہ صرف اور صرف مقامی کمپنیوں میں سرمایہ لگائیں۔ چونکہ کرنسی کی قیمت گر چکی تھی، ملک دیوالیہ تھا اور قرض کی قسط نہیں دے رہا تھا، اس لئے معیشت سُکھ کا سانس لینے لگی۔ مقامی صنعت میں عوام کی سرمایہ کاری کی وجہ سے ترقی ہوئی۔ صرف چند سالوں بعد ہی آئس لینڈ کی سالانہ جی ڈی پی 24.49 ارب ڈالر ہو گئی اور 2017ء تک ان کی جی ڈی پی کی شرح نمو 6.6 فیصد تک جا پہنچی۔ یہ تو ایک چھوٹے سے یورپی ملک کی مثال ہے۔ میکسیکو نے 1994ء میں کرنسی کی قیمت گرنے پر دیوالیہ ہونے کا اعلان کیا۔ ارجنٹائن 2001ء میں اسوقت دیوالیہ ہوا، جب اس پر 132 ارب ڈالر کا قرضہ تھا۔اگر ملکوں کی فہرست دیکھی جائے تو بڑے سے بڑا اور چھوٹے سے چھوٹا ہر ملک کسی نہ کسی دَور میں قرضوں کے معاملے میں اپنے اوپر دیوالیہ ہونے کا الزام لے چکا ہے۔ ان ملکوں کو مہلت دی گئی تاکہ وہ اپنی معیشت مضبوط کریں اور جب خوشحال ہو جائیں تو قرض ادا کر دیں۔ قومی دیوالیہ پن کے عالم میں ایک ملک اپنی معیشت پر ہمیشہ بھر پور توجہ دیتا ہے ۔ یہ بدترین معاشی صورتحال میں ملکوں کیلئے آگے بڑھنے کا ایک راستہ بھی سمجھا جاتا ہے۔ قرضوں کے اس عالمی دھندے کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کیلئے کوئی عالمی عدالت موجود نہیں ہے، جو قرض کی واپسی کو یقینی بنائے۔ قرضے دراصل پراجیکٹ کے حساب سے بینکوں نے غیر ملکی اور ملکی کمپنیوں کو دیئے ہوتے ہیں۔ وہ ان کے مطالبے کیلئے اس ملک کی عدالتوں میں مقدمہ کرتی ہیں۔ فیصلے کے بعد اس کمپنی کے اثاثے منجمد کئے جاتے ہیں اور اسے بیچ کر رقم واپس کی جاتی ہے ۔ یہ سب کچھ اس وقت تک ہوتا ہے جب تک کوئی ملک دیوالیہ نہیں ہو جاتا ۔ لیکن اگر کوئی ملک دیوالیہ ہو جائے تو پھر ایسا کوئی عالمی قانون موجود نہیں کہ اس ملک کے اثاثے قبضے میں لے کر قرض خواہوں کو دیئے جائیں۔ عالمی سطح پر مطالحتی (Arbitration) عدالتیں ہوتی ہیں جو فیصلہ کرتی ہیں۔ وہ بھی اس صورت میں جب قرضہ لیتے وقت معاہدے میں ان کا ذکر ہو لیکن ملک کے دیوالیہ ہونے کی صورت میں، جن کا سرمایہ ڈوبا ہوتا ہے وہ اس ملک کی معیشت کو پائوں پر کھڑا کرنے کیلئے بھر پور مدد کرتے ہیں تاکہ یہ خوشحال ہو کر ہمارے قرضے ادا کر سکے۔ عموماً ڈرایا جاتا ہے کہ دیوالیہ ہونے سے شرح سود بڑھے گی، کرنسی کی قیمت گرے گی، بینکوں سے سرمایہ کار پیسہ نکال لیں گے، سٹاک مارکیٹ ختم ہو جائے گی اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ملک پر تجارتی پابندیاں لگا دی جائیں۔ لیکن ایسا کچھ آج تک کسی دیوالیہ ملک کے ساتھ نہیں کیا گیا۔ لیکن اگر بدقسمتی سے ایسا ہو بھی جائے تو پھر ملک کی دولت ملک میں رہے گی۔ خود انحصاری بڑھے گی۔ ملیں صرف اپنوں کیلئے ہی اشیاء بنائیں گی۔ کھیت اپنوں کیلئے اناج اور پھل اُگائیں گے۔ یہ ہے ایک راستہ جو عالمی سطح پر بار بار کئی ملکوں نے اختیار بھی کیا ہے۔ لیکن اصل راستہ وہی ہے جو ایکواڈور اور تین اور جنوبی امریکہ کے ملکوں نے اختیار کیا تھا، کہ ہم اپنے تمام غیر ملکی قرضوں کا آڈٹ کریں گے، اور وہ قرضے جو صرف چند لوگوں کی خوشحالی کیلئے حاصل کئے گئے تھے وہ سب کے سب ناجائز ہوں گے، اور پھر انہوں نے وہ قرض ادا کرنے سے انکار کر دیا۔ یہ غیرت کا سودا ہے، جرأت کا راستہ ہے۔ اگر یہ اختیار کر لیا گیا تو پھر دُنیا ایک واڈور جیسے چھوٹے ملک کا کچھ نہیں بگاڑ سکی، جبکہ پاکستان تو نہ صرف ایک ایٹمی طاقت ہے، بلکہ اس کا جغرافیائی محلِ وقوع ایسا ہے کہ اس سے بگاڑ کر کوئی عالمی طاقت اس خطے میں اپنا اثرورسوخ قائم ہی نہیں رکھی سکتی۔