تجزیہ:سید انور محمود پاکستان اور بھارت کے ڈی جی ایم اوز میں جمعرات کو ہاٹ لائن رابطہ ہونے میں خوش ہونے کی بات کیا ہے ؟ ہمارا بیشتر میڈیا جمعرات اور ایک دن پہلے سارا وقت یہی کرتا رہا۔ یہ ہاٹ لائن 2003سے قائم ہے ۔ مجھے یاد ہے کہ اس وقت کے ڈی جی ایم او میجر جنرل کیانی، جو بعد میں آرمی چیف بنے ، مجھ سے گرین فون (آفیسرز کیلئے محفوظ ٹیلیفون لائن) پر موقع بہ موقع رابطہ کرتے اور بتاتے تھے کہ انہوں نے اپنے بھارتی ہم منصب سے رابطہ کیا اور آپ میڈیا کو مطلع کر سکتے ہیں۔ میں اس وقت وفاقی سیکرٹری اطلاعات تھا (2000ء سے 2004ء تک)۔ جو بات اس وقت معمول سمجھی جاتی تھی آج اس پر خوشیاں منائی جاتی ہیں۔ کوئی بھی جمعرات کو ہونیوالے رابطے کی اہمیت کوسمجھ سکتا ہے ۔ یہ رابطہ سالوں کے کشیدہ اور گھمبیر تعلقات کے بعد قائم ہوا ہے ،یہ تعلقات آج بھی ویسے ہی ہیں۔ اسی لئے دونوں ملکوں کے درمیان دو طرفہ رابطہ بہت اہم ہے اور یقیناً یہ ایک بڑی خبر ہے ۔ تاہم اسے یہیں ختم ہونا چاہئے ، ہمیں اس سے زیادہ کی توقع نہیں رکھنی چاہئے ۔ اگر کچھ ہوتا ہے تو یہ پاکستان کیلئے ایک قدم پیچھے کی جانب ہوگا، ہم پہلے یہ کہہ چکے ہیں کہ جب تک بھارت کشمیر میں 5اگست 2019 کا اقدام واپس نہیں لیتا تب تک دو طرفہ رابطہ نہیں ہوگا۔وزیراعظم عمران خان پرزور طریقے سے اس بات کا اعلان کر چکے ہیں۔ بھارت نے ابھی تک ایسا کچھ بھی نہیں کیا اور نہ کرنے کا اشارہ دیا ہے ، بلکہ اس نے تو بے دلی سے بھی یہ نہیں کہا کہ وہ ایسا کرنے پر غور کریگا۔اسی لئے یہ لاٹ لائن رابطہ بھارت کا ایک عوامی ہتھکنڈہ ہے اور وہ دنیا بالخصوص واشنگٹن میں نئی انتظامیہ کو یہ اشارہ دینا چاہتا ہے کہ وہ تو صرف امن چاہتا ہے ۔ کچھ وقت پہلے ہی بھارت نئی دہلی میں موجود غیرملکی سفارتکاروں کو مقبوضہ کشمیر کا دورہ کرا چکا ہے ۔ یہ تازہ بیک چینل ڈپلومیسی کا آغاز ہے جسکے تحت ہاٹ لائن رابطہ کیا گیا، اس کے وقتی فائدے کے طور ر بھارت کی جانب سے عارضی طور پر لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی رک جائیگی تاہم اس سے زیادہ کچھ نہیں ہوگا۔یہ ایک حربہ ہے جو بھارت پہلے بھی کئی بار استعمال کر چکا ہے اور ہم پھراسے سمجھنے میں ناکام دکھائی دے رہے ہیں۔ کوئی بھی عقلمند شخص خون خرابہ ختم کرنے اور امن قائم کرنے والے اقدام کی حمایت ہی کریگا۔ لیکن یہ امن کس قیمت پر ہے ؟اگر ہمارا موقف یہ رہا ہے کہ جب تک بھارت مقبوضہ کشمیر میں 5 اگست کا اقدام واپس نہیں لیتا تب تک کوئی بات نہیں ہوگی،تو ایسے میں بیک چینل رابطے ، جو صرف دو طرفہ ہوں،پر کشمیری یہ سمجھیں گے کہ پاکستان پیچھے ہٹ گیا ہے ۔بعض اوقات بیک چینل رابطے کسی صورتحال میں فائدہ مند بھی ہوتے ہیں لیکن میں حیران ہوں کہ ہمارے ہاں ایسا کیسے ہو سکتا ہے ، جہاں ایک ملک ہر ممکن طریقے سے دوسرے ملک کیخلاف جارحیت پرکمربستہ ہے ۔کیا ہم نے بلوچستان اور قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کی تازہ کارروائیاں نہیں دیکھیں؟ کیا ان کے پیچھے بھارت کے علاوہ کوئی اور ہو سکتا ہے ؟کیا مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی بربریت میں کچھ کمی آئی ہے ؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر اس معاملے میں اتنا پرامید ہونے کی کیا وجہ ہے ۔ اس سے نہ تو بربریت کا شکار کشمیری خوش ہوں گے اور نہ ہی یہ ہماری مسئلے کے مستحکم اور پرامن حل کی خواہش کیلئے فائدہ مند ہے ۔ایسا کرنے سے بھارت پر جو اس وقت تھوڑا بہت دباؤ ہے وہ بھی ختم ہو جائیگا۔ ہاٹ لائن رابطے ہر طرح سے ہونے چاہئیں لیکن ہمیں اس سے زیادہ نہ پڑھائیں جو کچھ بھی اس میں ہے ۔ کسی بھی بیک چینل رابطے کو نتیجہ خیز بنانے کیلئے پاکستان کو کسی تیسرے غیرجانبدار ملک کی شرکت پر اصرار کرنا چاہئے تاکہ بات چیت بامعنی اور نتیجہ خیز ہو۔ جسے ایک دفعہ برا تجربہ ہوا ہو وہ کام کرنے سے پہلے دو بار سوچتا ہے ، ہم تو کئی برے تجربات کا سامنا کر چکے ہیں۔