بی جے پی سے تعلق رکھنے والی بھوپال کی رکن پارلیمنٹ ملعونہ سادھوی پرگیہ ٹھاکر نے9 نومبر 2021ء منگل کو انڈیا میںاذان پرسرکاری طور پابندی لگانے کامطالبہ دہرایا ہے ۔ ملعونہ سادھوی پرگیہ ٹھاکرے کاکہنا تھا کہ اذان کے باعث ہندو سادھو، سَنتوں کی پوجا میں خلل پڑتا ہے اور لوگوں کی نیند حرام کی جاتی ہے ۔ مریضوں کا بھی دھیان نہیں رکھا جاتا ہے۔ ادھرہندئووں کی تنظیم سمیکت ہندو سنگھرش سمیتی نامی تنظیم کی طرف سے انڈیا میں نماز جمعہ کے اجتماعات روکنے اورنمازجمعہ پرقدغن لگانے کی مسلسل ناپاک کوششیں جاری ہیں۔ ہندئووں کی تنظیم سمیکت ہندو سنگھرش سمیتی کے لیڈر مہاویر بھاردواج کاکہنا ہے کہ مسلمان دہلی کے نزدیک گڑ گائوں علاقے میں کھلے میدان میں پریشانی کھڑا کرنا چاہتے ہیں اوروہ نماز ادا کرنے کے لیے نہیں بلکہ انہیںتو قبضہ کرنے کے لیے جگہ چاہیے۔ یہ صرف قبضہ جہاد ہے، جس کو ہم نہیں ہونے دیں گے۔ واضح رہے کہ مسلمان نئی دہلی کے پڑوسی شہر گڑگاؤں میں ایک کھلی جگہ یعنی میدان میں نمازجمعہ اداکررہے تھے تونومبر2021ء کے پہلے ہفتے میںہندوتنظیم نے اس پراعتراض جتایا جس کے باعث شہر کے سیکٹر12 کے نامزد مقام پر مسلسل دوسرے ہفتے بھی جمعہ کی نماز نہیں ہوئی۔ گزشتہ ہفتے جمعہ کے روزمسلمانوں کے داخلے پر پابندی لگاکر وہاں ہندو جماعتوں نے گووردھن پوجا کی اور جے شری رام کے نعرے لگائے گئے اور اودھم مچائی ۔ ہندوتنظیموں نے اس موقع پرجو مسلم مخالف نعرے بلندکئے وہ اس طرح تھے ’’ سیکٹر 12 جھانکی ہے پورا گروگرام باقی ہے‘‘ یہ نعرہ بابری مسجد کی شہادت سے پہلے لگایا جانے والے نعرے ’’یودھا تو بس جھانکی ہے، کاشی متھرا باقی ہے‘‘کی طرح ہی تھا۔ جھانکی کا مطلب مثال ہے، سیکٹر 12 ایک مثال ہے، پورا گروگرام باقی ہے جس کے باعث ضلع میں کم از کم پانج منظور شدہ جگہوں پر نمازجمعہ ادا نہیں ہوسکی۔ سیکٹر 12 کا وہ مقام جہاں پہلے نمازجمعہ ادا ہوتی تھی اسے آج کل ہندئووں نے گائے کے گوبر سے بھردیاہے ۔ ہندو گروپس یہاں ڈھیرے لگائے بیٹھے ہیںاور دھمکیاں دے رہے ہیں کہ وہ کسی بھی قیمت پر نمازجمعہ کی اجازت نہیں دیں گے۔ 2 نومبر 2021ء کو مقامی لوگوں کی طرف سے مخالفت کا حوالہ دیتے ہوئے گروگرام ہندو انتظامیہ نے 37 میں سے8 مقامات پر نماز جمعہ پڑھنے کی اجازت واپس لے لی۔ یہ وہ مقامات تھے جو ہندوؤں اور مسلمانوں نے 2018ء میں اسی طرح کے مظاہروں کے بعد اتفاق رائے سے مقرر کیے تھے۔ہندوانتظامیہ کاکہنا ہے کہ یہ قدم اعتراضات ہونے کی وجہ سے اٹھایا گیا ہے اور متنبہ کیا کہ اگر اسی طرح کے اعتراضات دوسری جگہوں پر ہوئے تو وہاں بھی اجازت نہیں دی جائے گی جن میں عوامی اور نجی دونوں مقامات شامل ہیں ۔ مقامی مسلمانوں کاکہنا ہے آبادی کے تناسب کے لحاظ سے مساجد کی کمی لوگوں کو مجبور کرتی ہے کہ وہ کھلی جگہوں پر جمعہ کی نماز پڑھیں۔ 2018ء سے پہلے پورے ضلع گڑگائوں میں 108 نامزد مقامات تھے جہاں مسلمان جمعے کی نماز پڑھ سکتے تھے لیکن یہ کم ہو کر 37 ہو گئے اور اب انھیں مزید کم کر دیا گیا ہے۔ دراصل پورے بھارت میں مسلمانوں کو دبانے کی جو لہر چلی ہے اس پیشرفت کو اسی سیاق و سباق میں دیکھنا چاہیے۔ ادھر 13 نومبر 2021ء کو تریپورہ میں مسلمانوں پر حملے اور ایک کمیونسٹ شخص وسیم رضوی کی طرف سے توہین رسالت کے خلاف کی جانے والی مہاراشٹر بند کی اپیل کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ ممبئی سمیت مہاراشٹر کے بیشتر مسلم اکثریتی شہروں میں بند نہ صرف پوری طرح کامیاب رہا ۔ بلکہ بند اورہڑتال کے اعلان سے ہی مروڑ میں مبتلا بی جے پی بند کے دوسر ے روز یعنی14نومبر2021 ء کو امراؤتی میں تانڈو مچا دیا۔ تشدد پرآمادہ ہندوغنڈوں کے غول کے غول کے صبح سے ہی متحرک ہوئے جن کے ہاتھوں میں بھگوا رومال تھے، چہرہ ڈھکے ہوئے جئے بھوانی جئے شیواجی کے نعروں کے ساتھ چن چن کرمسلمانوں کی دوکانوں ومکانوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا گیا۔ بلی اس وقت تھیلے سے باہر آگئی کہ جب ریاستی بی جے پی کے صدر نے یہ اعتراف کرلیا کہ 14نومبرکے بند کے پسِ پشت بی جے پی کی سیاست کارفر تھی اور وہ سیاست ہندوؤں کو تشدد پر آمادہ کرکے ریاست میں امن وامان کی صورتحال کو بگاڑنے کی تھی۔ ظاہر ہے امن وامان کی ابتری کا راست فائدہ بی جے پی کو ہی حاصل ہونا تھا اور یوں بھی اس طرح کی پرتشدد کارروائیوں کا بی جے پی کو اچھا خاصا تجربہ ہے اور اس سے فائدہ اٹھانے میں بی جے پی کے لیڈران کا کوئی ثانی بھی نہیں ہے مگر یہاں ریاستی حکومت بھی بی جے پی کی اس سازش سے بے خبر نہیں تھی لہٰذا ریاستی وزیر داخلہ نے ریاست کے اے ڈی جی کو فوری طور پر امراؤتی روانہ کر دیا تھا۔ مہاراشٹرکے امراؤتی میں بی جے پی کی شرانگیزی کا اندازہ اسی وقت ہوگیا تھا جب سابق وزیراعلیٰ دیوندرفڈنویس نے مسلمانوں کے بند کے خلاف مہاراشٹرحکومت سے سخت کارروائی کا مطالبہ کیا۔ اپنے مطالبے میں فڈنویس نے خاص طور یہ بھی سوال کیا کہ تریپورہ میں جب مسجد نذر آتش ہی نہیں ہوئی، اس کے خلاف بند کیوں کیا گیا؟ فڈنویس کی اس اپیل کا خاطر خواہ اثر ہوا اور رات میں ہی امراؤتی بی جے پی نے دوسرے روز بند کا اعلان کر دیا اورپھرامراؤتی کے ان تمام علاقوں میں جم کر تشدد پربا کیا گیا جہاں مسلمانوں کے مکانات و دوکانیں تھیں۔ بند کے دوران ہندو تنظیموں کے کارکنان نے راج کمل چوک، نمونہ گلی، چاندنی چوک، اتوارہ اور جئے اسمتھ چوک میں جم کر توڑ پھوڑ اور آتش زنی کی اور وہ بھی پولیس کی موجودگی میںجس کے بعد پورے شہر میں کرفیو نافذ کر دیا گیا اور انٹرنیٹ خدمات معطل کر دی گئیں۔