’’رجالُ الغیب‘‘وہ مردانِ کار اور بند گانِ خاص ہیں، جو مصیبت میں لوگوں کے کام آتے، دُکھی انسانیت کا سہارا بنتے، درماندہ قافلوں کی راہنمائی اور حاجت مندوں کی حاجت روائی کا اہتمام، بغیرکسی غرض کے کرتے ہیں۔انہیں " اولیائے مستورین" اور " عبادُ اللہ " بھی کہا جاتا ہے ،’’ رجالُ الغیب‘‘کا اپنا ایک وسیع جہاں اور پوشیدہ نظام ہے،جس کو سمجھنا عام آدمی کے بس میں نہیں ، ان"رجالُ الغیب" کے مختلف مناصب، مقامات اور درجات ہیں، جن میں غوث،قطب، ابدال،اوتاد، افراد، ابرار بطور خاص اہم ہیں، جو اپنے اپنے دائرہ کار کے مطابق ذمّہ داریاں سر انجام دیتے ہیں۔ اللہ کے ان بندوں کی دُعائوں اور توجھات سے بادل برستے، کھیتیاں سر سبز ہوتی، کائنات ارضی کے انقلاب رونما ہوتے، بحرو بر کے امور وقوع پذیر ہوتے ہیں اور ان کے معمولی تساہل سے نظم کائنات کے زیر و زبر ہونے کا اندیشہ پیدا ہو سکتا ہے۔ ان کے سامنے شرق و غرب کا بُعد اور بلندی اور پستی کا فرق کوئی معنی نہیں رکھتا، وہ تکوینی قوانین کے تحت اپنے امور سر انجام دیتے ہیں ،جس سے نہ انہیں اُکتاہٹ ہوتی ہے اور نہ تھکاوٹ۔ "رجالُ الغیب" کے معمولات کو ظاہری آنکھوں سے دیکھا نہیں جاسکتا، اور نہ ہی اپنی خواہش اور مرضی کے مطابق، اُن سے "آن لائن" رابطے کی کوئی صورت ممکن ہے اور نہ ہی ان کو اپنی"سفلی خواہشاتـ" کا پابند بنا کر ، کوئی فرد نظم یا نظام کائنات میں تصّرف(Changing) کا دعویٰ کر سکتا ہے ،اِلّایہ کہ کوئی "فردِ وحید" روحانی مدارج طے کرتا ہوا، اُس "باطنی نظام" کا حصہ بن جائے ، جس کی بابت صحیح بخاری، باب التواضع میں حدیث قُدسی ہے ؛میرا بندہ فرائض کی ادائیگی اور برابر نفلی عبادات سے میرا قُرب حاصل کرتا ہے، یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں ، اور پھر میں، اُس کے کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے،اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں، جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پائوں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے، میں اس کے سوال کو ضرور پورا کرتا ہوں اور اس کے لیے اپنی پناہ کو وَا کیے رکھتا ہوں، اور پھر یہ بھی فرمایا کہ جو میرے ولی سے دشمنی رکھے، میں اُس سے اعلانِ جنگ کرتا ہوں۔ "تمہیدطولانی" ہونے کا اندیشہ نہ ہوتا توان"مردانِ غیب" کی مزید تفصیلات بھی پیش کرتا، مگر قارئین کو "نفس مسئلہ " جاننے کی ذرا زیادہ جلدی ہوتی ہے، جو کہ ایک فطری تقاضہ بھی ہے، ۔۔۔ کہ اس ساری گفتگو کا شانِ نزول کیا ہے ؟ اور پھر اسکا " کوویڈ19ـ" سے کیا تعلق۔۔۔؟تو قارئین اصل میں بات یہ ہے،28 اپریل کو میرے ایک دوست نے "سوشل میڈیا" پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو ارسال کی ، جس میں خود کو "رجالُ الغیب" کا "خصوصی کارندہ" ظاہر کرتے ہوئے، ایک سفید ریش با با جی نے قوم کو یہ سندیسہ دیا تھا کہ" رجالُ الغیب" سے ان کی میٹنگ ہوگئی ہے ، جس کے تحت انہوں نے چند شرائط کی تکمیل کے بعد ـ، 15 مئی تک موجودہ" کورونا وبائ" کے خاتمے کی اُ سے یقین دہانی کروادی گئی ہے۔ ظاہر ہے پوری انسانیت کرب میں مبتلا ،جبکہ معاش اور معاشرت۔۔۔ شدید مشکلات کی زَد میں تھی، اور اب اس سے بھی زیادہ ہے، لوگ کورونا کے خوف سے آزُردہ اور کوچہ و بازار ویران اور بے حال۔ ایسے میں اگر کہیں سے امید کی کوئی کرن نظر آئے، یا کوئی ایسی نویدسنائی دے تو۔۔۔ اَندھا کیا چاہے دو اَکھیاں۔۔۔ لیکن ہوا یہ کہ15 مئی تو کجا۔۔۔15 جون آنے کو ہے ، اذانیں دے دے کر حلق خشک ہوگئے اور دعائوں اور پھر " میڈیائی دعائوں" کو بھی آزما کر دیکھ لیا ، میرے خطے کے حالات ہیں کہ سنبھلنے میں ہی نہیں آرہے، بلکہ وزیر اعظم نے تو آئندہ مزید،دوماہ کے لیے متنبہ کردیا ہے کہ کورونا زور پکڑے گا اور حالات مزید خراب ہوں گے،جو کہ" ایس او پیز" کی خلاف ورزی کا ایک فطری نتیجہ ہے، ایسے میں میرا خیال تھا، کہ بابا جی دوبارہ پردہ سمیں پر جلوہ گر ہوکر، کسی نئے "پیکچ" کا اعلان کریں گے ، یا پھرکم ازکم یہ ضرور کہیں گے کہ وہ در اصل" رجالُ الغیب" سے ہونے والے اجلاس میں سرِدست ہمارے خطے کا ابھی نمبر نہیں آیا، بلکہ فوری طور پر " نیوزی لینڈ" کو ریلیف دینے کا فیصلہ ہوا ہے ۔ اس لیے کہ وہ ساری شرائط، جن کی تکمیل پر اس خطے سے کورونا ختم ہونا تھا، نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جسینڈاآرڈرن۔۔۔ نے اس کی تکمیل کردی ہے اور جو جو" جگاٹیکس " ختم ہونے تھے ، وہ اس نے کروادیئے ہیں، اور جہاں جہاں سے جو " سرقہ" ہوا تھا، اس کی بھی برآمدگی ڈال دی گئی ہے، کتوں اور بلّیوں کے رونے دھونے کے معنی اور مفہوم کو بھی اس نے پالیا ہے، اور ـ"رجالِ کا ر" بابے اپنی اس " مریدنی" سے خوش ہوگئے ہیں اور وہاں سے انہوں نے اس وباء کی بساط کو سمیٹ لیا ہے ۔ سچ کہا تھا اقبال نے: خداوندا ! یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں کہ درویشی بھی عیاری ہے سلطانی بھی عیاری دراصل!متاثر کرنے اور مستفید کرنے میں یہی فر ق ہوتا ہے کہ دعویٰ کرنے والا متاثر کرنے کے چکر میں ہوتا ہے ، جو کہ ہمارے صوفیاء کا کبھی بھی شیوہ نہیں رہا، جبکہ مستفید کرنے والا" خدمت" کی فکر میں۔ جب آدمی تہذیب نفس کی بجائیـ" خیانت نفس" کا شکار ہو ، تو بر کت کہاں سے آئیگی، بے بنیاد دعووں کا تو یہی حشر ہوتا ہے۔ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں حضرت داتا گنج بخشؒ ایک ہزار سال قبل فرماگئے کہ یہ لوگ صوفی نہیں بلکہ"مُستَصْوِفْ" ہیں،یعنی جو دنیاوی مال و دولت اور ظاہری عزت و منزلت کی خاطر صوفیاء کے روپ اپناتے ہیں، انہیں حقیقی مقاماتِ تصّوف و معرفت اور منازل و مقاماتِ سلوک سے کچھ واسطہ نہیں۔ حضرت داتا صاحبؒ نے مزید فرمایا کہ یہ " جعلی صوفی" اولیا ء وصوفیاء کے نزدیک اُس حقیر مکھی کی طرح ہے ، جو آلودگی پسند ہو اور لوگوں کے لیے اس کی مثال اس بھیڑیے جیسی ہے، جو لوگوں سے ہر وقت مال ہتھیانے کی فکر میں رہے۔ ارباب حِل و عقد اور صاحبانِ بَست و کشاد نے15" مئی" کے انتظار کی تاکید کی تھی، بصورت ِ دیگر ۔۔۔ ایسے " بابوں" کے اوصاف و کمالات کو اوقاف والوں سے بڑھ کر کون جانے کہ جو از خود ساڑھے پانچ سو سے زائد مزارات اور خانقاہوں کے متولی اور منتظم ہیں۔ ٭٭٭٭٭