ایک ہفتہ کراچی میں مقیم رہا ۔اس دوران مختلف شاہرات پر مجھے ،سیلانی ٹرسٹ ،کے بورڈ نظر آئے اور سڑکوں پر مدینہ ٹرسٹ کی گاڑیاں بھی موجودتھیں ۔جوکہ قرآن مجید ، احادیث ودیگر مقدس کتب کے اوراق کو محفوظ مقامات پر پہنچانے کا فریضہ سرانجام دے رہی تھیں ۔ سیلانی سرائیکی لفظ ہے جوکہ سیرانی کے معنے میں استعمال ہوتا ہے ۔ میں نے ٹرسٹ سے وابستہ دوست اکبر ہاشمی صاحب سے دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ یہ ٹرسٹ خانقاہ شریف بہاول پور کے بزرگ حضرت خواجہ محکم الدین سیرانی کے عقیدت مندوں کا ہے ۔یہ عقیدت مند زیادہ تر میمن برادری سے تعلق رکھتے ہیں اور ان میں سے اکثریت تاجروں اور صنعت کاروں کی ہے ۔یہ لو گ اپنے ٹرسٹ کانام سیرانی ٹرسٹ بھی رکھ سکتے تھے مگر ان کا کہنا ہے کہ ہمارے مرشد سرائیکی زبان میں سیرانی کو سیلانی کہا جاتا ہے اس لیے ہم نے لفظ سیلانی کو برقرار رکھا کہ ہمارے لیے ہمارے مرشد بھی مقدس ہیں اور مرشد کی زبان بھی ۔ رات کو خیبر میل سے میری واپسی تھی تو اسٹیشن پر حضرت خواجہ محکم الدین سیرانی کے عقیدت مند کثیر تعداد میں نظر آئے ہماری پہلے سے بکنگ تھی مگر رش کی وجہ سے ACکلاس میں بکنگ نہیں مل رہی تھی کہ کراچی سے بہت سے عقید ت مند بہاولپور جارہے تھے ۔میں نے فوری طور پر نیٹ پر عرس مبارک کی تفصیلات دیکھیں کہ وہاں ہرسال نہیں تو گاہے بگاہے حاضری ہوتی ہے ۔عرس کی تفصیلات کے مطابق حضرت خواجہ محکم الدین سیرانی کا عر س مبارک یکم ربیع الثانی 29 نومبر 2019ء بروز جمعتہ المبارک شروع ہوجائے گا جس کے مطابق 30 نومبر2019ء بروزہفتہ دربارشریف پر بعد نماز عشاء نعت خوانی کی جائے گی اور قرعہ اندازی میں عمرہ کا ٹکٹ دیا جائے گا ۔ حضرت خواجہ محکم الدین سیرانی کے مرید اور عقید ت مند سیلانی ٹرسٹ کے حوالے سے ہر سال کروڑوں روپیہ خرچ کرتے ہیں اور سیلانی ٹرسٹ کی خدمات کراچی ودیگر شہروں میں روزانہ کی بنیاد پر جاری ہیں ۔خانقاہ شریف میں محکم الدین سیرانی یونیورسٹی کے قیام کامطالبہ ایک عرصے سے مقامی لوگ کرتے آرہے ہیں ۔حکومت نے ابھی تک اس طرف توجہ مبذول نہیں کی ۔درگاہ کے سجادگان جوکہ ہمیشہ اسمبلیوں کا حصہ بنتے آرہے ہیں ۔انہوں نے بھی اس اہم مسئلے کی طرف توجہ نہیں دی ۔اگر سیلانی ٹرسٹ خواجہ محکم الدین یونیورسٹی کے خواب کو شرمندہ تعبیر کردے تو بہت بڑا کام ہوگا ۔اس سے جہاں وسیب کے طالب علموں کا فائدہ ہوگا وہاں تحقیق وریسرچ کے نئے باب کھلیں گے اور حضرت خواجہ محکم الدین سیرانی کی خدمات کے بہت سے گوشے بھی سامنے آئیں گے ۔ حضرت خواجہ محکم الدین سیرانیؒ 1135ہجری کے پاک پتن شریف کے قریب پیدا ہوئے ۔پیدائش کے وقت آپ کا نام محمد عبداللہ رکھا گیا لیکن بعد میں آپ محکم الدین کے نام سے مشہور ہوئے ۔آپ کا گھرانہ علم و فضل کا گہوارہ تھا ۔آپ نے چھوٹی عمر میں قرآن پاک حفظ کرلیا اور سولہ سال کی عمر میں شرع عقائد علامہ تفتازانی تک درسی کتب کا دورہ ختم کرلیا اور اس کے بعد آپ حضرت خواجہ نور محمد مہارویؒ کے ہمراہ علم حاصل کرنے کیلئے دہلی چلے گئے جہاں آپ نے حضرت مولانا فخرالدین عرف فخر جہاں دہلویؒ کی مجالس علم و فضل اور اکتساب فیض اور طریقت و سلوک کی منازل طے فرمائی ۔اس کے بعد آپ نے اپنے چچا زاد بھائی حضرت خواجہ عبدالخالق ؒ کے دست مبارک پربیعت کی اورپھر ان کے حکم پر حضرت دیوان چاولہ مشائخ ؒ کے مزار پر اعتکاف کیا اور چالیس روز کا چلہ عبادت حق اور روزہ کی حالت میں گزارہ حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒ نے بھی یہاں ایک کنویں پر چلہ کاٹا آپ ؒ کے والدین کی بھی مزارات یہاں ہیںکہا جاتا ہے کہ اس چلہ کے دوران آپ ؒ کو غائب سے آواز سنائی دیتی رہی کہ دنیا کی سیر کرو اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کا پیغام دنیا میں عام کرو جس پر آپ ؒ نے اسلام کی تبلیغ شروع کردی ،آپ انسانوں اور انسانیت سے پیار کرتے تھے ،غریبوں کے ہمدرد اور غمگسار تھے، انہوں نے بلاتفریق تمام انسانوں کی خدمت کی جس کے نتیجے میں لاتعداد غیر مسلم لوگوں نے اسلام قبول کیا اور آپؒ صاحب السیر اور سیرانیؒ کے لقب سے مشہور ہوئے ۔ عرس کا ذکر چلا ہے تو سرائیکی زبان کے صوفی شاعر حضرت خواجہ غلام فرید کا تین روزہ عرس مبارک 3دسمبر سے کوٹ مٹھن میں شروع ہورہا ہے ۔عرس کی تقریبات کے سلسلہ میں انتظامات کا سلسلہ جاری ہے ۔روزنامہ 92نیوز کی ایک اور خبر کے مطابق پنجاب کی 13یونیورسٹیز کو ڈیڑھ ارب روپے کی گرانٹ جاری کی گئی ہے،گرانٹ حاصل کرنے والوں میں زیادہ تعداد لاہور کی ہے ۔دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ وسیب سے تعلق رکھنے والی زکریا یونیورسٹی ملتان ،اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور اور خواجہ فرید یونیورسٹی رحیم یارخان کا نام نظر نہیں آیا ۔حالانکہ یہ تینوں یونیورسٹیاں شدید مالی مشکلات کا شکار ہیں ۔ ایک اور خبر کے مطابق سول ججوں کی تعیناتی کے لیے امتحانات کا سلسلہ بھی جاری ہے ۔ وسیب کے وکلاء مطالبات کرتے آرہے ہیں کہ جب تک صوبے کا قیام عمل میں نہیں آتا ۔وسیب کیلئے سول ججوں کا کوٹہ آبادی کی بنیا د پر الگ مقرر کیاجائے ۔ان کا کہنا ہے کہ انصاف کے دائرے میں وسیب کو انصاف نہیں ملتا ۔ یہی وجہ ہے کہ عدلیہ میں وسیب کے تعلق رکھنے والے ججوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے ۔اب جبکہ اتفاق سے پہلی مرتبہ لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا تعلق وسیب سے ہے تو ضروری ہے کہ وکلاء برادری کے مطالبہ پر ہمدردانہ غور کیا جائے تاکہ وسیب کے با صلاحیت اور قابل ترین وکلاء کو جوڈیشری میں اپنی خدمات پیش کرنے کا موقع مل سکے یہ عین انصاف ہوگا ۔ پاکستان کا شمار اُن ملکوں میں ہوتاہے جہاں بجٹ میں تعلیم کیلئے بہت کم رقم مختص کی جاتی ہے ، مرکز کے علاوہ ہم صوبائی سطح پر دیکھتے ہیں تو صوبوں کا بھی یہی حال ہے اور صوبوں میں یہ تفریق بھی موجود ہے کہ بعد اضلاع میں تعلیمی ادارے اور تعلیمی سہولتیںنہایت ہی نہ کافی ہیں ، اُن کے مقابلے میں بعض اضلاع میں سہولتیں قدرے زیادہ ہیں۔سرائیکی وسیب کا شمار اُن علاقوں میںہوتا ہے جہاں تعلیمی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں ، یہ ٹھیک ہے کہ سرائیکی وسیب میں جاگیردار وں کی تعلیم کے معاملے میں عدم دلچسپی اپنی جگہ لیکن پنجاب کے حکمرانوں نے بھی وسیب کو تعلیمی سہولتیں دینے میں ہمیشہ بخل سے کام لیا۔ضرورت اس بات کی ہے کہ وسیب میں نئی یورنیورسٹیاں قائم کی جائیں اور پہلے سے موجود تعلیمی اداروں میں زیادہ سے زیادہ سہولتیں مہیا کی جائیں۔