سال2004ء کے بھارتی عام انتخابات میںکانگریس سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری اور سماج وادی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی، بایاں بازو اور دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر یو پی اے کی بنیاد رکھی اور لوک سبھا میں اکثریت ثابت کی اور کانگریس نے سونیاگاندھی کووزارت عظمی کا عہدہ سونپنے کا فیصلہ کیا لیکن بی جے پی نے یہ کہتے ہوئے کہ کسی بھی غیر ملکی مرد یاخاتون کو بھارت کا وزیراعظم نہیں بنایا جا سکتا سونیاگاندھی کو وزارت عظمیٰ کی مسند پر بٹھانے کو سختی کے ساتھ مستردکردیا جس کے بعدگانگریس کو اپنا فیصلہ بدلنا پڑا اورمن موہن سنگھ کو بھارت کا وزیراعظم نامزدکیا گیا۔ من موہن سنگھ بھارت کے پہلے سکھ وزیر اعظم تھے اوروہ کانگریس کی طرف سے دومرتبہ اس عہدے کے لئے چنے گئے ۔ پہلے 2004ء سے 2008ء اورپھر2009ء سے 2014ء تک وہ بھارت کے وزیراعظم رہے ۔ بھارت میں ایک سابق وزیراعظم راجیوگاندھی کی بیوہ اطالوی عورت سونیاگاندھی کو بھارتی وزیراعظم قبول نہیں کیاگیا مگر برطانیہ میں اس کے برعکس معاملہ ہوا۔ برطانوی حکمران جماعت نے بھارتی نژاد رشی سونک کو برطانیہ کا وزیراعظم بنا دیا ۔سونیا گاندھی (ولادت: 9 دسمبر 1946ء لوسیانا، اطالیہ) ایک اطالوی نژاد بھارتی سیاست دان ہیں۔ وہ انڈین نیشنل کانگریس کی صدر اور نہرو گاندھی خاندان کی ایک رکن ہیں۔ ان کی شادی سابق وزیر اعظم بھارت، راجیو گاندھی سے ہوئی۔ 1998ء میں ان کے شوہر کے قتل کے 7 برس بعد ان کو انڈین نیشنل کانگریس کا صدر بنایا گیا، اس عہدے پر وہ 19 برس (16 دسمبر 2017ء تک) رہیں۔ اسی عرصہ میں کانگریس بھارتی سیاست میں مرکزی جماعت کی حیثیت سے سامنے آئی۔ بنظرغائردیکھا جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ برطانیہ جیسے نسل پرست ملک میں ایک غیر سفید فام نسل کے ہندوستانی نژاد ایک ایشیائی شخص رشی سونک کا وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہونا یقیناً ایک تاریخی واقعہ ہے۔ وہ برطانیہ جو کبھی ہندوستان پر حکومت کرتا تھا، آج اسی برطانیہ پر ایک ہندوستانی نژاد شخص حکمران بن گیا۔ طرہ یہ ہے کہ جس بی جے پی نے سونیاگاندھی کوغیرملکی سمجھ کرانہیں بطوربھارتی وزیراعظم قبول نہیں کیا اوراس کے خلاف بھارت میں ایک پوری تحریک چلائی اسی بی جے پی نے بھارتی نژاد رشی سونک کی برطانوی وزیراعظم بننے پرخوشیاں منائیں جبکہ مودی نے برطانیہ کے اس کرداروعمل پراس کی تعریف وتوصیف کی۔ گزشتہ کچھ عرصہ کے اندر رشی سونک برطانیہ کے تیسرے وزیر اعظم منتخب ہوئے ہیں۔ ان سے قبل بورس جانسن اور پھر لز ٹرس دو وزیر اعظم آئے اور گئے۔ رشی سنک بورس جانسن کی کابینہ میں معاشی معاملات کے وزیر تھے۔ وہ معاشیات کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ جب ان کے پیشرئوں سے برطانیہ کے معاشی حالات نہیں سنبھل پائے تو آخری چارہ کے طور پر ماہرمعاشیات رشی سونک کو ملک کی باگ ڈور سونپ دی۔ گزشتہ ہفتے برطانیہ کی وزیر اعظم لز ٹرس صرف 45 روز ہی عہدے پر رہنے کے بعد مستعفی ہو گئی تھیں, جس کے بعد برسراقتدار جماعت(کنزرویٹو پارٹی) میں وزارت عظمیٰ حاصل کرنے کی دوڑ پھر تیز ہوگئی۔ لِز ٹرس کے مستعفی ہونے کے بعد سابق وزیراعظم بورس جانسن نے دوبارہ یہ عہدہ حاصل کرنے کی تگ و دو شروع کردی تھی لیکن کنزرویٹو پارٹی کے کئی لیڈروں نے بورس جانسن کی پیش قدمی پر تنقید کی تھی اور انہیں اسے بدلہ لینے کا اقدام قرار دیا تھا۔گزشتہ روز برطانیہ کی وزارت عظمیٰ کی دوڑ میں شامل بھارتی نژاد پارٹی رہنما رشی سونک سے ملاقات کے بعد بورس جانسن نے دستبرداری کا اعلان کردیا تھا۔تاہم رشی سونک کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ پینی مورڈانٹ تھیں۔پینی مورڈانٹ کو برطانوی دارالعوام میں کنزرویٹو پارٹی کے 100 سے زائد ارکان کی حمایت حاصل کرنا تھی لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہوسکیں جس کے بعد رشی سونک کے برطانیہ کے وزیر اعظم بننے کی دوڑ میں تمام رکاوٹیں دورہوگئیںاوروہ برطانیہ کے وزیراعظم بن گئے۔ ہندوستان ہو یا یورپ اور امریکہ کے ممالک، ہر جگہ منافرت کی سیاست کا زور ہے۔ اسی منافرت کے سیلاب میں رشی سنک نے برطانیہ کے نسل پرستی کی روایت کو توڑ کر ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔اس کے برعکس ہندوستان میں ووٹ دینے کاحق اگرچہ یکساں ہے اور ایک برہمن بھی ڈال رہا ہے اور ایک دلت و مسلمان بھی ووٹ ڈالتا ہے۔ لیکن سماجی سطح پر حقوق حاصل کرنے کے لئے یہ تینوں حقیقی معنوں میں یکساںنہیں ہیں۔ دلت آج بھی سماج میں اچھوت ہے اور مسلمان بھی دوسرے درجے کا شہری ہے۔ سال1990ء میں منڈل کیمشن نے سماجی سطح پر قائم اسی ذات پات کی کھائی کو کسی حد تک ختم کیا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا تھا کہ یوپی اور بہار میں پسماندہ ذاتوں کو اقتدار حاصل ہوا۔ اور ان دونوں ہی صوبوں میں مسلم اقلیت کو بھی اس دور میں کسی حد تک راحت حاصل ہوئی تھی۔ لیکن جب یہاں اعلیٰ ذاتوں کے ہاتھوں سے اقتدار کھسکنے لگا اور منڈل کے بعد ملک میں سماجی برابری کی بھی شروعات ہوئی تو بی جے پی نے مسلم منافرت کی سیاست پیدا کر سماجی تبدیلی کو روک دیا۔ اس طرح ہندوستان میں جو سماجی برابری کا دور شروع ہونا تھا وہ رک گیا اور ملک میں ایک بار پھر وہی ذات پات کا نظام حاوی ہو گیا۔ لب و لباب یہ کہ بھارت ہی واحد ملک ہے کہ جہاں انسانی برابری صرف ووٹ بٹورنے تک محدود ہے جبکہ سماجی برابری پہلے کبھی تھی اور نہ اب ہے۔یہاںنسل اور ذات پات پر مبنی صدیوں پرانا سماجی نظام ابھی بھی قائم ہے جس میں انسانی برابری کا تصور موجود نہیں۔ ٭٭٭٭٭