امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کورونا وبا کاسارا نزلہ چین پر گرا رہے ہیں۔وبا کے باعث امریکہ ایک بدترین مصیبت میں مبتلا ہے۔ اس وائرس سے اتنی اموات ہوچکی ہیں جو ویت نام جنگ سے بھی زیادہ ہیں۔ صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ان کے پاس ثبوت ہیں کہ کورونا وائرس چینی شہرو وہان کی وائرس پر تحقیقات کرنے والی لیبارٹری سے خارج ہوا۔ یعنی یہ کوئی عام وائرس نہیں ہے جو کسی جانور سے انسانی معاشرہ میں داخل ہوا ہو۔دوسری طرف ان کے اپنے ملک کی انٹیلی جنس ایجنسی سی آئی اے کا موقف بالکل مختلف ہے۔ اسکا کہنا ہے کہ یہ وائرس لیبارٹری میں تیار کردہ یا جینیاتی طور پر تیار کردہ نہیں ہے بلکہ کسی جانور سے انسان میں منتقل ہوا ہے۔ صدر ٹرمپ کے بعد امریکہ کے اتحادی ملک آسٹریلیا کے وزیراعظم نے بیان دیا ہے کہ ان کے ملک کے پاس اسکا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ موجودہ وبا لیبارٹری میں تیار کردہ وائرس سے پھیلی ۔ تاہم امریکی صدر ہٹ دھرمی سے اپنی رائے پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ انہوں نے دھمکی دی ہے کہ اگر تحقیقات میں چین ذمہ دار ثابت ہوا تو اسے وبا کو پھیلانے کی قیمت چکانا پڑے گی۔یہ خاصی سنگین وارننگ ہے جس کے عالمی سیاست پر اثرات مرتب ہونگے۔ صدر ٹرمپ وُوہان کے انسٹی ٹیوٹ آف وائرولوجی پر الزام تراشی کر تو رہے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ امریکی حکومت اپنے ادارہ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ (این آئی ایچ)کے توسط سے وائرسوں پر کام کرنے والی اس لیبارٹری کو مالی امداد فراہم کرتی آئی ہے۔گزشتہ سال ہی اس تجربہ گاہ کو تہتر ہزار امریکی ڈالر کی امداد دی گئی تھی۔ یہ ادارہ اس جگہ سے صرف ایک میل دُور ہے جہاں پہلی بار کورونا وائرس(سارس کوروناٹو) کی موجودگی کا انکشاف ہوا تھا۔ یہ امریکی امدادسینتیس لاکھ ڈالر کے اس بڑے پروگرام کا حصہ تھی جو امریکی حکومت جراثیم پر تحقیقات کی غرض سے دنیا کے آٹھ ملکوں کو فراہم کرتی ہے۔چین ان میں سے ایک ہے۔ دیگر ملکوں میںانڈونیشیا‘ ملائشیا‘ لاؤس‘ ویتنام‘ کمبوڈیا‘ میانمار اور تھائی لینڈشامل ہیں۔ اس پراجیکٹ کے جو اغراض و مقاصد بیان کیے گئے ہیں اس میںیہ بات شامل ہے کہ تحقیقات کی جائیں کہ جانوروں میں کون کون سے وائرس پائے جاتے ہیں اور ان کی تفصیلات کیا ہیں‘ خاص طور سے چمگادڑوں میں۔ اور ان انسانی بستیوں کا سروے کیا جائے جنہیں چمگادڑوں سے انفیکشن لاحق ہونے کا زیادہ خطرہ ہے۔ گویا موجودہ کورونا وائرس کے انسانوں میں پھیلنے کا امکان امریکہ کے علم میں بھی تھا اور اس پر تحقیقات کی جارہی تھیں۔ اب چین پر الزام یہ لگایا جارہا ہے کہ اس نے ریسرچ کے دوران میں ضروری حفاظتی اقدامات میں کوتاہی برتی جس سے یہ وائرس لیبارٹری سے نکل کر انسانوں میں پھیل گیا۔ الزام ہے کہ چین اس بات کوکچھ عرصہ تک چھپاتا رہا اور اس نے دنیا کو بروقت متنبہ نہیں کیا۔ چین نے ان تمام الزامات کی سختی سے تردید کی ہے۔ صدر ٹرمپ سے پہلے امریکہ اور چین کے تعلقات بہت حد تک ہموار طریقہ سے آگے بڑھ رہے تھے ۔ دنیا کے دو بڑے ممالک جراثیم کے پھیلاؤ کی روک تھام کے لیے بھی ایک دوسرے سے تعاون کررہے تھے۔دونوں کے درمیان جراثیم پر مشترکہ تحقیقات کی ایک بیس سالہ تاریخ ہے۔ جب سنہ دو ہزار دو میں دنیا میں پہلی بار’سارس کورونا‘ نامی وبا چین میں پھیلی توجارج بش کی انتظامیہ نے چین کو اِسے کنٹرول کرنے میں مدد فراہم کی ۔ امریکہ نے چین میں عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ذریعے اپنے چالیس ماہرین بھیجے تاکہ وبا کو قابو کیا جاسکے۔ یہ کوشش بہت کامیاب ثابت ہوئی تھی ۔ یہ و ائرل انفیکشن صرف ایشیا تک محدود رہا۔ صرف ستائیس امریکی شہری سارس کا شکار ہوئے۔ ان میں سے بھی صرف ایک ہلاک ہوا۔ باقی صحت یاب ہوگئے ۔سنہ دو ہزار چار میں چین اور امریکہ نے ملکر ایک پروگرام شروع کیا تھا جسکا مقصد تھا کہ کس طرح چین کی انفلوئنزا کی نگرانی کرنے کی استعداد کو بڑھایا جاسکے۔سنہ دو ہزار نو میں ’ایچ ون ۔این ون‘ نامی وائرس نمودار ہوگیا تو امریکہ اور چین نے اس بارے میں اپنی معلومات کا تبادلہ کیا اورملکر اسکے خلاف ویکسین تیار کی۔ دو ہزار تیرہ میں H7N9 نامی وائرس کی وبا پھوٹی تو ایک بار پھر دونوں ملکوں نے جراثیم سے متعلق اعداد و شمار کا تبادلہ کیا ‘ مشترکہ تحقیقات کیں۔ چین نے اسکی ویکسین بنالی تو امریکہ کو بھی فراہم کردی۔ دو ہزار چودہ میں مغربی افریقہ میں ایبولا نامی وائرس سامنے آگیا۔ چین نے اس سے نپٹنے کے لیے ایک افریقی ملک سیریا لی اون میں لیبارٹری بنائی۔ اس تجربہ گاہ میں امریکہ اور چین کے سائنس دانوں نے ایک ساتھ کام کیا۔ ان کی مشترکہ کوششوں کے نتیجہ میں ایبولا پر کنٹرول کرنے میں مدد ملی اور یہ وبا دنیا میںاس پیمانے پر نہیں پھیلی جسکا شروع میں خدشہ تھا۔ اگر صدر ٹرمپ چین سے تعاون جاری رکھتے تو موجودہ وبا میں بھی دونوں ممالک ملکر تیزی سے اس کو کنٹرول کرنے کی مشترکہ کوششیں کرسکتے تھے‘ کامیاب بھی ہوسکتے تھے لیکن ٹرمپ چین سے محاذآرائی پر اپنی سیاست چمکا رہے ہیں۔نومبرمیں امریکہ کے صدارتی الیکشن ہونے والے ہیں جو ٹرمپ کے اعصاب پر سوار ہیں ۔ انہیں خطرہ ہے کہ مخالف امیدوار جو بائیڈن امریکہ میں کورونا کے تیزی سے پھیلنے کی ذمہ داری ان پر ڈالنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ اسلیے انہیںکوئی قربانی کا بکرا چاہیے ۔ اُن کا کہنا ہے کہ چین نہیں چاہتا کہ وہ دوسری بار صدر بنیں اس لیے اُس نے جان بوجھ کر وبا سے متعلق حقائق چھپائے اور اسے امریکہ میں پھیلنے کا موقع دیا۔ ٹرمپ کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ وہ سفید فام نسل پرست ہیں‘ سفید فام نسل کی برتری میں یقین رکھتے ہیں۔اُنکے ووٹروں میں بھی سفید فام نسل پرست اورکم تعلیم یافتہ امریکیوں کی اکثریت ہے۔چین کے خلاف نفرت پھیلا کر ٹرمپ انہی ووٹروں کو پکا کررہے ہیں۔ورنہ اب تک کوئی ٹھوس ثبوت سامنے نہیںآیا کہ کورونا وائرس وُہان کی لیبارٹری میں تیار کیا گیا تھا۔