امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ جوائنٹ کمپری ہنسو پلان آف ایکشن کو ناقابل قبول قرار دے کر ایٹمی معاہدے کو ختم کرنے کا اعلان کردیا ہے اور اب ایران پر سخت پابندیاں بھی عائد کی جائیں گی۔ ٹرمپ کا یہ اعلان غیر متوقع نہ تھا کیونکہ وہ اپنی انتخابی مہم کے دوران اس معاہدے کو ناقص قرار دیتے رہے ہیں اور اسے ختم کرنے کی باتیں کرتے رہے ہیں۔ ماضی میں ٹرمپ نے مسلمانوں اور اسلام کے بارے میں جن عزائم کا اظہار کیا تھا وہ اب ان پر عمل پیرا ہیں۔ امریکی صدر کی پالیسی وہی ہے جوکہ ماضی میں دیگر امریکی صدور کی ہوا کرتی تھی دراصل امریکہ کی پالیسی ہمیشہ ہی سے یہ رہی ہے کہ مسلم ممالک کو تقسیم کرو اور حکومت کرو، خاص طور پر مشرق وسطیٰ میں امریکی عزائم یہ ہیں کہ ان ممالک کے معدنی وسائل پر قبضہ کیا جائے، خواہ اس مقصد کے لیے معاہدے کئے جائیں یا ان ممالک پر جارحیت کے ذریعے اپنا تسلط قائم کیا جائے۔ پورے خطہ عرب میں اس وقت امریکہ نے اسرائیل کی بالادستی قائم کروا رکھی ہے اور اسرائیل کو ایٹمی طاقت کے طور پر مضبوط کر رکھا ہے۔ مسلم ممالک پر ایٹمی پھیلائو کے الزامات عائد کر کے ان پر پابندیاں عائد کی جاتی ہیں جبکہ امریکہ نے بھارت کے ساتھ ایٹمی معاہدہ کر رکھا ہے۔ 2015ء کے اوائل میں امریکہ کے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات میں تبدیلی رونما ہوئی تھی کیونکہ دونوں ممالک کے مابین ایٹمی معاہدہ ہوا تھا۔ اس معاہدے کی خاص بات تھی کہ اس معاہدے میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے پانچ مستقل ارکان ممالک نے مل کر یہ معاہدہ طے کروایا تھا جن میں برطانیہ، جرمنی اور فرانس برابر کے شریک تھے، اب جبکہ ٹرمپ نے اس معاہدے کے خاتمے کا اعلان کیا ہے اس کا خیر مقدم کرنے والوں میں اسرائیل کے علاوہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں، دوسری جانب برطانیہ، جرمنی اور فرانس نے اس فیصلے پر اظہار افسوس کیا ہے اور کہا ہے کہ اب ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلائو کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ یورپی یونین نے بھی امریکہ کے اس فیصلے کو افسوسناک قرار دیا ہے دنیا کے مختلف ممالک نے ایران سے ایٹمی معاہدہ جاری رکھنے کا عندیہ دیا ہے۔ حتیٰ کہ سابق امریکی صدر باراک اوبامہ نے بھی صدر ٹرمپ کے اس فیصلے کی مخالفت کی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ دنیا میں کئی بار ایسے حکمران آئے جو دنیا کو اپنے اشاروں پر چلانے کی کوشش کرتے تھے لیکن ایسا ہرگز نہ ہوسکا۔ اتنا ضرور ہوا کہ دنیا میں امن کی فضا برقرار نہ رہ سکی۔ ہمارے سامنے جرمنی کے ایڈولف ہٹلر کی مثال موجود ہے۔ اس نے جو کچھ کیا وہ پوری دنیا جانتی ہے۔ اب اسی طرح کی تاریخ دہرائی جا رہی ہے۔ جرمن نژاد ڈونلڈ ٹرمپ پوری دنیا کے لیے خطرہ بنا ہوا ہے۔ خاص طور پر اس کی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف دشمنی کھل کر سامنے آ چکی ہے۔ دنیا اب تیسری عالمی جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے۔ کوریائی ممالک کو تو قریب لایا گیا ہے مگر ٹرمپ کا حالیہ اعلان پوری دنیا کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ ٹرمپ ہر اس مسلم ملک کو زیر کرنا چاہتا ہے جو اس کے عزائم کی راہ میں حائل ہوتا ہے۔ مشرق وسطیٰ کے تمام مسلم ممالک اس وقت تقسیم ہو چکے ہیں۔ عراق اور افغانستان کے بعد لیبیا اور شام کی صورت حال انتہائی تشویشناک ہے۔ عرب سپرنگ پیدا کرنے میں در پردہ کردار امریکہ ہی کا تھا۔ امریہ کا اصل چہرہ پوری دنیا کے سامنے ہے۔ عراق میں کیمیائی ہتھیاروں کی موجودگی کا جواز پیدا کر کے عراق پر فوجی کارروائی ہوئی۔ بعد میں خود سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر نے اس امر کا اعتراف کیا کہ غلط اطلاعات کی بنا پر عراق پر فوجی کاروائی ہوئی۔ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی سمیت برطانیوی خفیہ ایجنسیوں نے بھی واضح کردیا تھا کہ عراق میں کیمیائی ہتھیاروں کا وجود ہی نہ تھا اور اب ایران نے بھی معاہدے کے بعد اپنے ایٹمی ہتھیاروں میں استعمال ہونے والی کوالٹی کا یورینیم افزودہ کرنا بند کردیا تھا جس کی بنا پر ایران پر عائد پابندیاں ہٹانے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ 2015ء میں جب یہ معاہدہ طے پایا تو ایران کے پاس 20 ہزار کے قریب فیوجز تھیں۔ بعد میں ایران نے اعلان کیا وہ اب مزید سنٹری فیوجز نصب نہیں کرے گا اور اس معاہدے کے پندرہ برس کے بعد یورینیم کا ذخیرہ 98 فیصد کم ہو جانا تھا لہٰذا ایران نے 2016ء میں ایک بار پھر اپنے نصب شدہ سنٹری فیوجز کی تعداد کم کردی۔ عالمی طاقتوں کا مسلسل یہ مطالبہ تھا کہ ایران آراک کا اپنا جوہری مرکز بھی بند کردے لہٰذا اس پر بھی عملدرآمد ہونا تھا۔ اس پر ایران نے 2031ء سے پہلے اپنے بھاری پانی کی مقدار بڑھانے پر پابندی لگا دی تھی۔ عالمی اداروں نے مسلسل ایران کے ایٹمی اداروں کے ساتھ مل کر ایرانی تنصیبات کا بھی برابر معائنہ کیا اور اس کی تصدیق کی کہ اب ایران ایٹم بم کی تیاری میں کسی بھی نوع کا مواد خفیہ طورپر اپنے ملک میں کسی اور جگہ منتقل نہیں کررہا۔ ایران نے اپنے معاہدے کی برابر پاسداری کی اس کے باوجود امریکی حکومت نے خدشہ ظاہر کیا کہ ایران برابر اپنی سرزمین پر ایٹمی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ 2015ء میں جب یہ معاہدہ طے ہوا اس کے بعد ایران کے ساتھ تجارتی سرگرمیوں کا آغاز ہوا۔ اس طرح پورے یورپ اور امریکہ سے ایران نے اپنا تجارتی پروگرام شروع کرتے ہوئے ان ممالک کے ساتھ تجارتی معاہدے بھی کئے۔ ان معاہدوں کے تحت ایران کو ایئرکرافٹ کی فراہمی بھی ہونی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسی سال 12 مئی کو اس جوہری معاہدے کی تجدید کرنی تھی لیکن اب یہ معاہدہ خود امریکہ نے ہی ختم کرنے کا اعلان کرکے پوری دنیا کو حیران کردیا ہے۔ سابق امریکی صدر جونیئر جارج بش کے قریبی ساتھی اور امریکی سفارتکار جان بولٹن جوکہ اب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قومی سلامتی کے مشیر ہیں وہ امریکہ کا وہی پرانا ایجنڈا لے کر ایک بار پھر سرگرم ہو گئے ہیں جوکہ پوری مسلم امہ کے خلاف ہے۔ دس سال بعد ایک بار پھر امریکی مسلم ممالک کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے جواز تلاش کررہے ہیں۔ چین اور روس دونوں امریکی پالیسیوں کی بھرپور مخالفت کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں عالمی سطح پر سفارتی کاری کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ مسلم امہ کا اتحاد اور یگانگت موجودہ وقت کا تقاضا ہے۔ مسلم امہ نے اگر اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے تو پھر آنے والے وقت میں آفات کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ اب بھی وقت ہے کہ او آئی سی اور تمام مسلم ممالک مل کر اپنا اتحاد قائم کریں کیونکہ امریکہ تمام مسلم ممالک کے خلاف باری باری چڑھائی کرنے کی منصوبہ بندی کر چکا ہے۔