مسرت جمشید چیمہ پنجاب کی ترجمان ہیں ‘آپ انتہائی سلجھی ہوئی اور زیرک خاتون ہیں۔ بزنس ویمن بھی ہیں اور سیاست دان بھی،گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستانی سیاست کا حصہ ہیں‘پاکستان کی سیاسی شکست و ریخت کی کہانی بیان کرتے ہوئے اکثر جذباتی بھی ہو جاتی ہیں اور غصے بھی۔ (2018ء کے عام انتخابات کے بعد معرض وجود میں آنے والی اسمبلی میں آپ پنجاب اسمبلی کی مخصوص نشست پر ممبر بنیں،کیونکہ وہ خود اور ان کے خاوند جمشید چیمہ عام انتخابات میں اپنی اپنی سیٹوں سے الیکشن ہار گئے تھے۔)اور اپنے حلقے کی تعمیر و ترقی کے لیے دن رات محنت کی۔پنجاب میں پارٹی کو مضبوط کرنا ہو یا پھر وفاق میں پارٹی کی ترجمانی کرنی ہو‘ ان کی اسی سیاسی اپروچ دیکھتے ہوئے پنجاب حکومت نے رجیم چینج کے بعد انھیں اپنا ترجمان مقرر کر دیا۔ اس سے قبل وہ تحریک انصاف کی صوبائی سیکرٹری اطلاعات بھی رہ چکی ہیں ‘یہی وجہ ہے کہ پنجاب حکومت کی ترجمانی کا کام بھی انتہائی احسن طریقے سے کر رہی ہیں۔ ان سے میری کچھ سرسری ملاقاتیں تو تھیں‘یہ پہلی ملاقات انتہائی تفصیلی تھی ۔ اس ملاقات کا کوئی خاص ایجنڈا نہیں تھی‘وہی سوالات تھے جو ان دنوں میڈیا پرزیرِ بحث ہیں اور پنجاب حکومت ان سوالوں کے بارے وضاحت بھی دیتی رہی مگر وضاحت کے باوجود ان سوالوں کے جوابات تشنہ رہے‘اس ملاقات میں ان پر بات کرنے کی کوشش کی گئی۔میں نے پوچھا کہ ’’میڈم! ایک میچور سیاست دان بننے کے پیچھے کیا کہانی ہے‘‘ تھوڑا مسکرائیں اور گویا ہوئیں’’دیکھیں! عورت کے کئی روپ ہیں،بیٹی ،بہن،بیوی اور ماں،عورت ان سب کرداروں میں ہمیشہ نمایاں رہی،اسے ان کرداروں کے ساتھ معاشرے میں سروائیو کرنا پڑتا ہے اور اگر عورت کمزور ہونے لگے تو یہ معاشرہ اسے کچا کھا جائے۔لہٰذا میں نے بھی ہمیشہ یہی کوشش کی کہ میرے معاشرے اور پارٹی نے مجھے جو بھی کردار دیا‘اسے میں پوری ایمان داری سے نبھائوں‘ہر کردار کو اپنا آخری کردار سمجھا اور اس میں جا ن مار دوں۔میں نے کبھی عورت ہونے کا فائدہ نہیں اٹھایابلکہ ہر اسٹیج پر اپنی فیملی اور پارٹی کے شانہ بشانہ کھڑی رہی ‘میرے خیال سے ایک سیاست دان کو ایسا ہی ہوناچاہیے‘‘۔میں نے اسمبلیوں کی تحلیل کے حوالے سے بھی بات کی اور ٹیکنوکریٹ سیٹ اپ پر بھی، اس حوالے سے وہ بہت پر امید اور پرجوش نظر آئیں‘ان کو پورا اعتماد ہے کہ اسمبلیوں کی تحلیل عمران خان کو مزید مضبوط کر دے گی‘ٹیکنو کریٹ سیٹ اپ کو وہ قانون کے خلاف سمجھتی ہیں۔ان کے خیال میںموجودہ حکومت اپنے کیسز معاف کروانے اور اگلے انتخابات کے لیے پراپیگنڈا کرنے میں مصروف ہے۔ ترجمان پنجاب حکومت اس بارے میں بھی بڑی پر امید ہیں کہ پرویز الٰہی ،عمران خان کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے،میں نے اس پریشانی کا اظہار بھی کیا کہ اندر کی خبریں کہہ رہی ہیں کہ مونس الٰہی ،خان کے ساتھ ہی رہے گا جب کہ پرویز الٰہی اپنے بھائی شجاعت حسین سے ہاتھ ملا لیں گے۔وہ میری اس بات سے بالکل متفق نہیں تھیں‘ان کا کہنا تھا کہ یہ صرف چہ مگوئیاں ہیں،پرویز الٰہی ہمارے ساتھ ہیں اور ساتھ ہی رہیں گے۔حالانکہ یہ بات بڑی واضح ہے کہ ق لیگ ہمیشہ سے ہی فوج کی حمایت یافتہ جماعت رہی‘عمران خان سے موجودہ اتحاد کی وجہ بھی جنرل باجوہ بنے اور اس میں قطعاً دو رائے نہیں کہ مستقبل قریب یا بعید میں بھی ق لیگ یا چودھری برادران ہوا کا رخ دیکھ کر سیاسی فیصلے کریں گے،میڈیا پر چلنے والی ان خبروں میں کچھ نہ کچھ سچائی تو ہے مگر ترجمان پنجاب حکومت اس حوالے سے مطمئن ہیں کہ ایساکچھ نہیں۔الیکشن وقت پر ہوں گے یا نہیں ؟موجودہ سیاسی بحران کے تناظر یہ سوال انتہائی اہم ہے کیوں کہ عمران خان الیکشن پر بضد ہیں جب کہ پی ڈی ایم اپنے کیسز معاف کروانے تک کبھی بھی الیکشن نہیں کروائے گی،مزید موجودہ مہنگائی کے بعد تو بالکل بھی نہیں۔بقول ترجمان حکومت پنجاب’پاکستان نے موجودہ این آر او ٹو کی بہت بھاری قیمت دینی پڑی‘‘اس میں کوئی شک نہیں،این آر او ون میں تو صرف لوٹی ہوئی دولت معاف ہوئی تھی جب کہ این آر او ٹو میں تو کرپشن کو لیگل کر دیا ‘ہر ڈاکو اور کرپٹ آدمی کو لائسنس دے دیا گیا‘اب وہ جب چاہے جیسے چاہے ملک کی دولت لوٹ سکتا ہے۔ تازہ ترین خبر جس میں منجمد اثاثوں کے کیس کو بھی ختم کر دیا، یعنی اب روپے کی قدر گرنے سے بھی پی ڈی ایم میں شامل کرپٹ افراد کی دولت میں اضافہ ہوگا۔وہ انتہائی پر امید نظر آئیں‘ان کا کہنا تھا کہ الیکشن حکومت نہیں اب عوام کروائیں گے‘عوام انھیں اتنا مجبور کر لیں گے کہ یہ الیکشن کی طرف جانے پر مجبور ہو جائیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ’’پی ڈی ایم نے بائیس کروڑ پچھہتر لاکھ کے اس ملک کو ایک لیبارٹری بنا دیا ہے۔ ہم لیب میں پڑے ہوئے مینڈک، چوہے، کاکروچ اور کیڑے مکوڑے ہیں،یہ لوگ ہم پہ تجربات کرتے ہیں اور اگر یہ تجربات ناکام بھی ہو جائیں تو نقصان عوام کا ہوتا ہے،یہ ڈاکو اور لٹیرے تو خوش حال ہیں اور ایسے ہی رہیں گے۔میں نے ان سے یہ بھی شکوہ کیا کہ زمان پارک یا بنی گالہ کے دروازے ذہین دماغوں کے لیے کیوں نہیں کھلتے؟شاعر‘ادیب یا اسکالرز سے آج تک خان صاحب نہیں ملے،انھیں معاشرے کے اہم لوگ صحافی لگتے ہیں یا ٹک ٹاکرز،یہ لوگ اپنی جگہ پر اہم ہوں گے مگر قلم کاریا آرٹسٹ،جو معاشرے کے خدوخال بناتے ہیں‘جو قوموں کی قسمت لکھتے ہیں‘جو سماج کے بدنما داغوں کو مٹانے کا کام کرتے ہیں‘جن کے قلم یاسیت کی ماری قوموں میں امید کا چراغ روشن کرتے ہیں‘انھیں کبھی بھی اجلاسوں میں کیو ں نہیں اہمیت دی گئی؟ادبی ا داروں کو بھی سیاسی بھینٹ چڑھا دیا گیا‘آخر کیوں؟میری اس بات پر اتفاق کیا ،یہ ملاقات کوئی اہم سوالات پر ختم ہوئی۔دیکھنا یہ ہے کہ ترجمان پنجاب حکومت کی یہ باتیں کس حد تک سچ ثابت ہوتی ہیں اور مستقبل میں پارٹی پنجاب میں کیا کردار ادا کرتی ہے۔