مشرقی بازو کٹا تو چند برس کا تھا۔ملک ٹوٹنے اور قوم کے بکھرنے کے مناظر ہمارے بزرگوں نے دیکھے۔ معمر بزرگوں نے رنج اور دکھ میں ڈوب کر ڈھاکہ ڈوبنے کا احوال سنایا۔پاکستان پر وہ دن بڑے بھاری تھے۔ دوست اور دشمن کی تمیز ممکن نہ تھی۔بانیان پاکستان کی اولادیں اپنے ہی بدن پر چھید کررہی تھیں۔بعد نصف صدی کے پاکستان آج ایک بار پھر ایسے سیاسی، معاشی اور سماجی سے گزررہاہے جو مشرقی پاکستان کے سانحے کی یاد دلاتاہے۔ کئی دہائیوں کی بے معنی اچھل کود سے سیاست بے وقعت ہوچکی ہے۔آڈیولیکس نے رہی سہی کسر بھی نکال دی۔ایک طرف سیاست دانوں کا کچھا چھٹا کھل رہاہے تو دوسری طرف عدالتی نظام بھی اپنی ساکھ بچانے میں بری طرح ناکام ہوچکا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسی کہتے ہیں کہ پچاس ہزار مقدمات سپریم کورٹ میں زیرسماعت ہیں۔ ججوں کی کئی ایک آسامیاں خالی پڑی ہیں لیکن کوئی پرسان حال نہیں۔ آزاد صحافت پر لرزہ طاری ہے۔روایتی صحافتی اداروں کی جگہ شتر بے محار کی طرح آزاد سوشل میڈیا نے جگہ لے لی۔کل تلک مقتدرہ اداروں کا نام عزت اور احترام سے لیا جاتا تھا لیکن اب وہ متنازعہ ہوچکے ہیں۔ ان کے ذکر کے بغیر کوئی محفل مکمل نہیں ہوتی یعنی انہی کے دم سے چلتاہے کاروبار جہاں۔ الیکشن کمیشن کا حال بھی اچھا نہیں۔ معیشت کا نہ ہی پوچھیں تو اچھا ہے ۔ اشرافیہ کے ایک چھوٹے سے طبقہ کو چھوڑ کر ہر سو بھوک اور ننگ کا راج ہے۔مخلوق خدا آسمانوں کی طرف انصاف کے لیے دیکھ رہی ہے۔ ملک کے طول وعرض میں مایوسی اور پژمردگی کا ماحول ہے۔ اہل سیاست اور مقتدر حلقوں کی حماقتوں نے پاکستان کو ایک ایسے مقام پر لا کھڑا کیا ہے، جہاں عالمی معاشی جائزے اسے دیوالیہ ہونے والے ممالک کی فہرست میں سب سے اوپر رکھتے ہیں۔اس کے برعکس بھارت دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن کر ابھرا ہے۔ اگرچہ بھارت کئی ایک طرح کے داخلی مسائل کا شکار ہے۔سب سے بڑا مسئلہ اقلیتوں کا غیر محفوظ ہونا ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ عالمی منظرنامہ میں وہ تیزی سے ایک بہت ہی بااثر ملک کے طور پر ابھر رہاہے۔ مثال کے طور اگلے برس شنگائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس بھار ت میں ہوگا، جہاں بھارتی وزیراعظم اس عظیم علاقائی اتحاد کی لیڈرشپ سنبھالیں گے۔ اس سال دسمبر میں وہ جی 20 کی سربراہی سنبھالنے کو ہیں۔ نوے کی دہائی تک پاکستان کو معیشت اور سماجی ترقی میں اپنے تمام ہمسائیوں اور خطے کے ممالک پر سبقت حاصل تھی۔ ہزاروں غیرملکی سیاح اور طلبہ نہ صرف پاکستان میں قیام پزیر تھے بلکہ آزادی کے ساتھ پورے ملک میں گھومتے پھرتے تھے۔یکا یک ملک کی کایا ہی پلٹ گئی۔پہلے گورننس اور سروس ڈیلیوری کا نظام بری طرح مفلوج ہوا۔سیاسی جماعتوں نے مل جل کر ایک دوسرے کو رسوا کیا۔ سیاسی جماعتیں ادارے بننے کے بجائے خاندانی لمٹیڈ کمپنیاں بنتی گئی ۔ متوسط طبقہ ان سے دور ہوتاگیا۔ دستور پاکستان پانچ سے پندرہ سال تک کے بچوں کی فری اور لازمی تعلیم کی ضمانت دیتاہے لیکن اس کے باوجود اس عمر کے دوکروڑ بچوں نے سکولوں کی شکل تک نہیں دیکھی۔معیاری تعلیم صرف متوسط اور بالائی طبقہ تک محدود ہوگئی۔ خسارے میں چلنے والی دس بڑی کارپوریشنز کو فعال بنانے یا ان کی نج کاری کرنے کے لیے کسی بھی حکومت نے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا۔ عالم یہ ہے کہ حکومت کو کما کر دینے کے بجائے الٹا ہر سال اربوں روپے قومی خزانہ سے ان کارپوریشنوں پر خرچ ہوجاتاہے۔مثال کے طور پر پی آئی اے سالانہ پچاس ارب کا خسارہ کرتی ہے۔اس کے باوجود اس میں بھرتی کیے گئے ملازمین کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی اور نہ ہی اسے پرائیویٹ ملکیت میں دیاجاتاہے۔ملک کا معتبر ترین ادارہ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس ہے ۔ جولائی میں اس نے بتایا کہ ریلوے ایک لاکھ پندرہ ہزار ملازمین کوسالانہ 35 ارب روپے پنشن کی مدد میں ادا کرتی ہے لیکن ان ملازمین کا کوئی اتہ پتہ نہیں۔ بجلی کی 68 فی صد پیداوار تھرمل پر کرنے کا فیصلہ ایک ناقابل معافی جرم ہے۔ موجودہ معاشی بحران کے پس منظر میں مہنگے بجلی گھر اور ان کے ساتھ کیے گئے غیرذمہ دارانہ معاہدے ہیں۔ہائیڈل پاور جنریشن کے دستیاب مواقعوں سے خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھایاگیا۔ اتنی مہنگی بجلی گھریلو استعمال میں لانا بھی محال ہے چہ جائے کہ کارخانے لگائے جائیں۔تیل سے چلنے والے پلانٹ لگانے کی منظوری دینے والے سیاستدان بھی ہیں اور نوکرشاہی بھی اس جرم میں برابر کی شریک ہے۔ دونوں نے باہمی تعاون اور اشتراک کے ساتھ قومی خزانے کو مال مفت دل بے رحم کی طرح لوٹا۔ بقول اکبر آلہ آبادی کے قوم کے غم میں ڈنر کھاتے ہیں حکام کے ساتھ رنج لیڈر کو بہت ہے مگر آرام کے ساتھ نوے ہی کے شروع میں پاکستان متعدد علاقائی تنازعات میں بھی الجھ گیا، جہاں اسے نان اسٹیک ایکٹرز کا سہارہ لینا پڑا۔ چنانچہ عالمی اداروں اور بالخصوص مغربی میڈیا میں پاکستان کو دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں شمار کیا جانے لگا۔ سیاحوں کی آمد بتدریج کم ہوتی گئی۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کا باب بھی تمام ہوگیا کہ جہاں امن وامان نہ ہو وہاں سرمایہ کار پھٹکتے بھی نہیں۔ معاشی طور پر کمزور ہوتے ہوئے پاکستان میں یک دم کرپشن اور بدعنوانی نے بھی عروج پایا۔اہل اقتدار کو ملک پر اعتبار ہی نہیں رہا لہٰذا وہ بناؤ کے بجائے بگاڑ پر لگ گئے۔ پولیس اور احتساب کے ادارے بھی زوال کا شکار ہوگئے جو جنتے بڑے عہدے پر فائز ہوا، اس نے اتنا ہی مایوس کیا۔کرپشن کے مقدمات قائم ہوتے رہے۔جرم ثابت ہوا نہ کسی کو کوئی سزا ہوئی۔ آوے کا آوا ہی بگڑا ہواہے۔ملکی دولت لوٹ کر بیرون ممالک وسیع وعریض جائیدادیں بنائی گئی۔ الزمات لگے۔ گھر، جائیدادیں سب دیکھی بھالی ہیں لیکن کوئی پکڑا گیا اور نہ پکڑاجائے گا۔ اس حمام میں سب ننگے ہیں۔رفتہ رفتہ دنیا نے پاکستان کو ایسے ملک سے تشبہہ دینا شروع کردی جو ’’ان گور ن ابیل ‘‘ ہے۔اگلے چند ہفتوں میں ملک میں ایک نئی عسکری قیادت ذمہ داریاں سنبھالنے والی ہے۔ جس کا حالیہ سیاسی تنازعات میں کوئی حصہ نہیں رہا۔ عام الیکشن بھی سرپر کھڑے ہیں۔ یہ موقع ہوگا کہ عسکری لیڈرشپ سیاسی قیادت کے ساتھ مل بیٹھ کر ان بنیادی مسائل کا حل تلاش کرے جنہوں نے ملک کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔شفاف اور قابل بھروسہ الیکشن کا انعقاد وہ پہلا نکتہ ہے جس پر مقتدرہ اور سیاسی جماعتوں کو اتفاق رائے پیدا کرنا ہوگا۔دوسرا نکتہ معیشت کی بہتری ہے۔سب مل کر عزم کریں کہ پاکستان کو بتدریج اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا ہے۔اس کی تباہ حال عالمی ساکھ کو بحال کرنا ہے۔ عالمی اداروں میں کسی زمانے میں پاکستان کلیدی کردار ادا کیا کرتا تھا ۔ دوبارہ پاکستان کو اس قابل بنانا ہوگا کہ دنیا اس کی رائے اور رہنمائی طرف دیکھے۔پاکستان کو ایک ایسا ملک بنانا ہوگا جہاں کے حکمران اور سرکاری حکام دوسرے ملکوں کی شہریت کے لیے دیوانے نہ ہوں بلکہ اپنا تن من دھن وطن کی تعمیر اور ترقی پر لگانے کے لیے پرعزم ہوں۔