ایران ایک قابل رحم ملک ضرورہے تاہم اسے ایک قابلِ رشک ملک کہنا بھی مبالغہ نہیں ہوگا۔ ایران قابل ِ رحم اس لئے ہے کہ کرونا وائرس کی حالیہ وبا کے متاثرین کی فہرست میں یہ عالمی سطح پر تیسرا اور مسلم ملکوں میں پہلا ملک ہے جہاں اس وبا سے سب سے زیادہ لوگ متاثر ہوئے ہیں ۔یہ سطور لکھتے وقت ایران میں اب تک ساڑھے اکیس ہزار سے زیادہ افراد میں کرونا وائرس کی تشخیص ہوئی ہے جبکہ سترہ سو کے قریب اموات واقع ہوئے ہیں۔اس ملک کومیں قابل ِ رشک اس لئے سمجھتاہوں کہ ایک طرف یہ کرونا وائرس کی آسمانی آفت میں گھرا ہواہے تو دوسری طرف امریکہ جیسی شیطانی طاقت نے اسے شدید مالی پابندیوں میں جکڑ رکھاہے۔لیکن مشکل کی اس گھڑی میںنہ صرف اس ملک کا حکمران طبقہ پرعزم دکھائی دیتاہے بلکہ وہاں کے سخت جاں لوگوں نے بھی صبر کادامن نہیں چھوڑا ہے۔ ساڑھے آٹھ کروڑ کی انسانی آبادی کا یہ ملک پچھلے کئی سالوں سے بدستور امریکی پابندیوں کی زد میں ہے ۔ پانچ سال پہلے جولائی 2015ء میںامریکہ اور پانچ دیگر عالمی طاقتوں روس ، چین ،فرانس، جرمنی اور برطانیہ نے P5+1کے نام سے ایران کے ساتھ اس شرط پرایک تاریخی معاہدہ کرکے اس سے معاشی پابندیاں ہٹادیں کہ ایران ایٹمی ہتھیاربنانے کیلئے یورینیم کی افزودگی کو محدود کرے گا ۔اس معاہدے کے بعد ایران کی معیشت کا پہیہ پھر سے گھومنے لگا کیونکہ ایک طرف اسے اپنے سوبلین ڈالرز منجمدبیرونی اثاثوں تک رسائی ملی اور دوسری طرف اسے تیل کی عالمی منڈی میں اپنا تیل بیچنے کی اجازت مل گئی۔اس معاہدے کے بعد ایران کے مرکزی بینک کے مطابق ملک کی مجموعی مقامی پیداوار کی شرح نمو 12.3فیصد تک پہنچ گئی تھی ۔دوہزار سترہ میں امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ صدر منتخب ہوئے توانہوں نے مشرق وسطی میں جہاں اپنے لاڈلے اسرائیل پر نوازشات کی بارش شروع کردی تودوسری طرف ایران کو ایک مرتبہ پھر دیوار سے لگانے کی ٹھان لی۔ ستمبر2018 ء کو ڈونلڈ ٹرمپ نے اس تاریخی معاہدے کی خلافت ورزی کرتے ہوئے امریکہ کو یک طرفہ طور پر اس ڈیل سے نکال لیا اور پھر سے ایران کے اوپر اقتصادی پابندیاں عائد کردیں۔ ان پابندیوں نے ایک بار پھر ایران کی معیشیت کو پیچھے دھکیل دیا جس سے اس کی تیل کی برآمدات بھی متاثر ہوئیں ، مالیاتی شعبوں میںبیرونی سرمایہ کاری ٹھپ ہوکر رہ گئی یوں معیشیت کی شرح نموناقابل یقین حدتک گر کر 3.7فیصد پر آگئی ۔ان پابندیوں کا اطلاق نہ صرف یک طرفہ طور پر ایران پر ہونے لگا بلکہ امریکہ نے ان بیرونی عالمی تجارتی کمپنیوں پر بھی عائد کی جو ایران سے لین دین کرتی تھیں۔ایک رپورٹ کے مطابق پچھلے سال مارچ تک اٹلی ،یونان اور تائیوان جسیے ملکوں نے ایران سے تیل خریدنا بندکردیا تھا جبکہ بھارت نے سینتالیس فیصد اور چین نے انتالیس فیصداس ملک سے تیل خریداری کم کردی یوں ایرانی تیل کی برآمدات صرف ایک اعشاریہ ایک ملین بیرل یومیہ تک آکر رک گئی۔غور کیاجائے تواپنی معیشیت کودیوالیہ ہونے سے بچانے کیلئے اس وقت ایران کے پاس بہت محدود راستے بچے ہوئے ہیں۔ انسانی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے غیر قانونی چھپے ذرائع سے تیل کی فروخت اوربہت محدود پیمانے پر کئی دوسری سرمایہ کاریوں کے علاوہ ایران اپنے سیاحت کے شعبے سے پرامید تھا جس سے وہ اپنی لڑکھڑاتی معیشت کو پاوں پر کھڑا کرنے کا ایک اہم ذریعہ سمجھا جاتاہے ۔اگلے پانچ سال تک ایرانی حکومت سیاحت کے شعبے میں کمانے والے منافع کو 11.8بلین ڈالرز سے 4 بلین ڈالر تک بڑھانے کے لئے پرعزم تھی لیکن بدقسمتی سے اس کا یہ شعبہ بھی متاثر ہوتادکھائی دیتاہے۔ایران کے سیاحت کے شعبے کو پہلا دھچکا رواں سال جنوری میں اس وقت لگا جب امریکہ نے عراق میں اس کے القدس فورس کے اہم ترین کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کو عراق میں ہلاک کردیا جس کے بدلے میں ایران نے عراق میں امریکی اڈوں پر راکٹ داغ دیئے ۔دوسری طرف اس جنگی ماحول کے دوران ایران نے یوکرین کے ایک مسافربردار طیارے کو گرانے کی غلطی کرکے اپنے ملک کا ساکھ مزید مجروح کردیا۔خوف اور جنگ کے امکانات کی وجہ سے باہر سے آنے والے بے شمار سیاحوں اور زائرین نے اپنی بکنگ کینسل کردی جوایران کی معیشت پر ایک اور کاری ضرب ثابت ہوئی۔یعنی اتنے بے شمار مالی بحرانوں اور عالمی سطح پر الگ تھلگ ایران نے اس کے باوجود بھی اپنے آپ کوسنبھال کررکھا ہواہے ۔ اقتصادی پابندیوں کے علاوہ ایران کرونا وائرس کی حالیہ عالمی وبا سے بھی جنگ لڑرہاہے اور پرعزم دکھائی دیتاہے ۔ تقریباًپچاس سال کے طویل ترین عرصہ کے بعداس ملک نے گزشتہ ہفتے پہلی مرتبہ عالمی مالیاتی بینک(آئی ایم ایف) سے مدد کی اپیل کرتے ہوئے12 بلین ڈالر کی امداد کی درخواست کی۔ کہاں ہیںعالمی برادری ، اقوام متحدہ اور کہاں ہیںانسانی حقوق کی علمبردار تنظیمیں جو مشکل کی اس گھڑی میں اس قابل رحم ملک کیلئے کم ازکم آواز اٹھائیں؟