کسی صوفی شاعر نے کہا تھا۔ ہر کہ خدمت کرد، اْو مخدوم شد ہر کہ خود را دید، اْو محروم شد اس کے برعکس، پاکستان کو دو تین کے سوا، سارے حکمران ایسے ملے جو دعوے خدمت کے کرتے، پر شوق مخدومیت کا رکھتے تھے۔ ہو سکتا ہے کہ ان میں سے بعض، آغاز میں نیک نیتی کے ساتھ چلے ہوں، مگر اقتدار کی بھول بھلیوں میں یہ بھی چکرا کر رہے۔ بظاہر سہل نظر آنے والی چیزیں، اکثر بلا کی پیچیدہ نکلتی ہیں۔ صحیح کہا گیا ہے ع کہ عشق آسان نمود اول، ولی بسیار مشکلہا حضرت ِامیر خسرو کا یہ شعر، اقتدار کے ہر ایوان کے دروازے پر لگا دینا چاہیے۔ بہت کٹھن ہے ڈگر پنگھٹ کی جو آوت ہے سو جات ہے بھٹکی بھٹکنے اور بھٹکانے والے بے شمار، راہ دکھانے والے ناپید۔ وزیر ِاعظم عمران خان سے عوام کو اب بھی، بڑی توقعات ہیں۔ مگر وہ فرماتے ہیں کہ حکومت کرنا بہت آسان کام ہے۔ سوال ان سے یہ کیا گیا تھا کہ اپوزیشن اور گورنمنٹ میں سے زیادہ مشکل کیا ہے؟ جواب سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ ان کے نزدیک، اپوزیشن کرنا نسبتاً دشوار کام ہے۔ صحیح جواب یہ ہوتا کہ اپوزیشن کرنا دشوار اور گورنمنٹ چلانا دشوار ترین کام ہے۔ حکومت کرنا، اگر نام ہے ایوان ِاقتدار کو جا بسانے کا، تو یقیناً یہ مرحلہ بہت آسان ہوا۔ تاریخ ایسے فلاں اور فلاں حکمرانوں سے بھری پڑی ہے جو منہ میں چاندی کا چمچہ لیے پیدا ہوئے اور مدتوں مقتدر رہے۔ پھر مرتے مرتے بھی داد ِعیش دیتے گئے۔ لیکن، اگر اس سے مْراد عوام کے دْکھ درد میں شریک ہونا اور ان کی واقعی خدمت کرنا ہو، تو اس سے زیادہ مشکل کار اَور کیا ہو گا؟ پھر تو یہ وہ کام ہوا کہ جس سے خلفاے راشدین نے پناہ مانگی تھی۔ جس نے عمر بن عبدالعزیز کا یہ حال کر دیا تھا کہ پْرانے واقف کار، دیکھ کر بھی پہچان نہیں سکے تھے۔ وہ کیا شے تھی جس کی سختی سے آہنی پیکر، گھْل کر رہ گئے؟ حکمرانی کا نہیں، یہ ذمہ داری کا بوجھ ہے، آدمی کو جو اس طرح توڑ دیتا ہے۔ بقول ِیگانہ سمجھتے کیا تھے؟ مگر سنتے تھے ترانہ ء درد سمجھ میں آنے لگا جب، تو پھر سْنا نہ گیا آدمی اپنے مستقبل کی فکر میں تو مرا ہی جاتا ہے۔ لاکھوں کروڑوں لوگوں کا بار، وہ اگر سچ مچ اٹھا لے تو حال کیا ہو گا؟ یہ تصور ہی راتوں کی نیند اْڑا دینے کو کافی ہے کہ میری رعایا میں آج، لاکھوں لوگ بھْوکے رہیں گے۔ ایسے میں، وزیر اور مشیر بھی وہی کچھ کرتے ہیں، جو حاکم ِاعلٰی کرتا ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ ان کی کارکردگی، دراصل آئینہ ہوتی ہے حکمران کی کارگْزاری کا۔ وزیروں کو سب سے زیادہ فکر، حاکم کی خوشنودی کی رہتی ہے۔ شیخ سعدی کہتے ہیں گر وزیر از خْدا بترسیدی ہم چنان کز مَلِک، مَلَک بودی یعنی، وزیر اگر خدا سے بھی ایسے ہی ڈرتا جیسا وہ بادشاہ سے خوف کھاتا ہے، تو فرشتوں کا ہم پلہ ہو جاتا! وزیر بْرا کرتے ہیں کہ بھلا، سارا حاکم کے سر جاتا ہے۔ گویا یہ حساب بھی اسی کو دینا ہے۔ ع این ہم اندر عاشقی، بالائی ِغم ہای ِدگر ان ساری ذمے داریوں کو سہل قرار دینا، بڑے دِل گْردے کا کام ہے! عمران خان، جلد ہی اقوام ِمتحدہ کے اجلاس میں بھی شرکت کریں گے۔ وہاں آسانی سے حکومتیں کرنے والی مخلوق کا ہجوم ہو گا۔ اس مخلوق کو ہمارے وزیر ِاعظم، اگر غایر نظر سے دیکھیں، تو ممکن ہے کہ یہ سوال ان کے بھی دل میں آ ہی جائے کہ ع یہ آدمی ہیں کہ سائے ہیں آدمیت کے! ٔٔٔ٭٭٭٭٭ جس کا کام، اْسی کو ساجے اب کے رْویت میں آ گیا ہے خلل رَمَضاں ایک، اور عید ڈبل جی نہیں، یہ شعر تازہ نہیں، مولوی اسماعیل میرٹھی کا ہے۔ سو ایک صدی سے زیادہ پرانا ہوا۔ "اب کے" سے پتا چلتا ہے کہ تضاد کا یہ غالبا پہلا موقع تھا۔ کوئی محقق اگر قدم اٹھائے تو شاید پتا چل جائے کہ سب سے پہلے مفتی پوپلزئی، کون صاحب ہوئے! اسی طرح، مولانا چراغ حسن حسرت کا ایک ایسا کالم نظر سے گزر چکا ہے، جس میں رْویت ِہلال کے اختلاف کا ذکر کچھ ایسے پیرائے میں کیا گیا تھا کہ جیسے، یہ جھگڑا خاصا پرانا ہے۔ یاد رہے کہ حسرت، پاکستان بننے کے بعد، صرف آٹھ برس جیے تھے۔ گویا یہ قضیہ، پاکستان بننے کے فورا بعد شروع ہو گیا تھا۔ اس ضمن میں گزرے واقعات، حکومت کی نظر میںآ رہے ہوں گے جو رْویت ِہلال کمیٹی قائم کی گئی۔ ظاہر ہے کہ اس اقدام سے، ریاست نے اپنی رِٹ قائم کرنے کی کوشش کی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ علماء کرام پر مشتمل اس کمیٹی کی ترکیب اور ترتیب پر، یہ مْچیٹا ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتا۔ لیکن ہوا وہی، جو ہم مسلمانوں کے بیچ مْدت سے ہوتا چلا آ رہا ہے۔ مختلف لوگ کھڑے ہو گئے اس دعوے کے ساتھ کہ ہم بھی ہیں پانچویں سواروں میں کمیٹی چاند کو، اگر دْوربین کی مدد سے دیکھتی ہے تو پھر زیادہ طاقتور دْوربین کیوں نہ استعمال کی جائے؟ اور آنکھ کو اس کا مشاہدہ، اگر بلا واسطہ کرانا مقصود ہے تو اس پر اتفاق ِراے مشکل کیوں ہے؟ مفتی پوپلزئی صاحب کو بلا ناغہ، ہر مرتبہ شہادتیں موصول ہوتی ہیں۔ ان مشاہدوں کی نظر دوربین سے زیادہ تیز ثابت ہوتی آ رہی ہے۔ کرنا یہ چاہیے کہ شہادت موصول ہوتے ہی، کمیٹی کے نمائندوں کو دوربینوں سمیت، "جائے وقوعہ" پر بھیج دیا جائے۔ پھر چاند دیکھنے کی یہ تقریب، ریکارڈ کر کے ٹی وی پر چلوا بھی دی جائے۔ اس سے نہ پوپلزئی صاحب کو اختلاف ہو گا اور نہ غالباً مفتی منیب الرحمٰن صاحب ہی کو۔ رہے عوام، تو ان کی اکثریت کا حال ع اپنی بلا سے، بْوم بسے یا ہْما رہے کا سا ہے۔ ایک تو کمر توڑ مہنگائی، اْوپر سے رمضان میں پھل فروشوں کے من چاہے نرخ۔ عوامی شاعر نے چاند اور سورج کو جھْٹلا کر، گویا عوام کی زبان سے کہا تھا کہ ہم تو نہ چاند سمجھیں، نہ سورج ہیں جانتے بابا، ہمیں تو یہ، نظر آتی ہیں روٹیاں