مجھے یقین ہے کہ یہ محض ایک اتفاق ہے کہ پشاور جلسے کے اگلے روز پاکستانی لبرلز کے ترجمان انگریزی اخبار نے جو سرخی جمائی ،وہی الفاظ برطانوی نشریاتی ادارے کی اردو سروس میں اس سے اگلے روز اسی جلسے سے متعلق شائع ہونے والی خصوصی سٹوری کا بھی عنوان تھے۔ ہر دو نے کٹھ پتلی حکومت (Puppet Rule) کو ہٹائے جانے کے پی ڈی ایم کے مطالبے کو جلی حروف میں نمایاں کیا۔ دونوں معتبر صحافتی اداروں سے متعلق مجھے تو کوئی خاص بدگمانی نہیں، تاہم سوشل میڈیا صارفین بالخصوص ٹویٹر استعمال کرنے والے پاکستانیوں نے برطانوی نشریاتی ادارے کو خوب آڑے ہاتھوں لیا۔ میں انگریزی اخبار کا اس وقت سے مداح ہوں جب چالیس سال قبل کسی دانا خیر خواہ نے فوج کے لیے مخصوص امتحانات کی تیاری کے سلسلے میں مجھے اس اخبار کا باقاعدگی سے مطالعہ کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ یہی نہیں بلکہ بعد ازاں ہمارے دورِ لفٹینی میں ہمارے کمانڈنگ آفیسربھی ہم نوجوان افسروں کو اکثر ’ریڈرز ڈائجسٹ‘ کے ساتھ ساتھ اس انگریزی اخبار کے باقاعدگی کے ساتھ مطالعہ کی نصیحت فرماتے تھے۔ اگر میری یاداشت مجھے دھوکہ نہیں دے رہی تو’جمہوریت پسند لبرلز‘ اور’ جمہوریت مخالف قوتیں‘ (Anti-democratic Forces) جیسی تراکیب سے اس مارشل لائی دور میں بھی ہم ناآشنا ہی رہے۔ اس دور میں جہاں ایک طرف بائیں بازو والے اشترا کیوں سے ہم واقف تھے تو دوسری جانب دائیں بازو کی مذہبی سیاسی جماعتیں ہوا کرتی تھیں۔ آج کے دور میں پائے جانے والے’ بائیں بازو کے جمہوریت پسند لبرلز‘ اُس دور میںکہاں جیتے تھے ، اب مجھے ٹھیک سے یاد نہیں! اگر میر اقیاس درست ہے تو 11 ستمبر 2001ء کے بعد جب مذہبی انتہا پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن کا آغاز کیا گیا تھاتو اس دوران بھی ’بائیں بازو کے جمہوریت پسند لبرلز ‘یوں ہماری سیاست میں ایک اہم فریق بن کرسامنے نہیں آئے تھے۔میرا اندازہ ہے کہ یہ ’ہائبرڈ‘ گروہ اس دور کی پیداوار ہے جب دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی افواج پر اچھے بُرے طالبان میں تفریق کے الزامات اور خود پاکستان سے ’ ڈو مور‘ جیسے مطالبا ت سامنے آنے لگے تھے۔غالباََ یہی وہ دور تھا جب بائیں بازو کی’ رومانیت‘، دائیں بازو کی ’انتہا پسندی ‘ اور مغرب کے’ لبرل ازم‘ کا باہم اختلا ط ہوا تھا۔ اغلب امکان یہی ہے کہ یہی وہ دور تھا جب انگریزی اخبار بھی ’ جمہوریت مخالف قوتوں‘ کے خلاف جا کھڑا ہوا تھا۔ چند سال قبل اخبار نے برطانوی نشریاتی ادارے کے پروگرام میںاخبار کی تقسیم میں رکاوٹوں کی بابت پاکستانی ایجنسیوں کے خلاف شکایت کی تھی۔ میزبان کے بار بار اصرار کے باوجود مگر کوئی ثبوت وہ پیش کرنے میں ناکام رہے تھے۔اس دوران میں نے تین سال جی ایچ کیو میں گزارے اوراب ریٹائر ہو کرراولپنڈی کیہی ایک انتہائی خالص عسکری کالونی میں رہائش پذیر ہوں۔مجھے یقین ہے کہ یہ بھی ایک اتفاق ہی ہے کہ اس سارے عرصے میں میرے ہاکر نے ایک بار بھی مجھے انگریزی اخبار کی فراہمی سے معذوری یا اس کی تقسیم میں درپیش کسی دشواری کا شکوہ نہیںکیا۔ فوجی علاقوں میں اس کی تقسیم پر مبینہ قدغن کے باوجود اخبار ہمیشہ کی طرح آج بھی بلا تعطل اور بغیر کسی روک ٹوک کے متواتر مجھے مل رہا ہے۔ برطانوی نشریاتی ادارہ کہ جس کے اُسی شو کا آج ایک بار پھر غلغلہ ہے، ایک معتبر ادارہ ہے۔ تمام ترشکایتوںکے باوجود اس کے پیشہ وارانہ مقام سے کسی کو انکار ممکن نہیں۔کئی بڑے نام اس ادارے سے وابستگی کی بناء پرہی ہمارے ہاں جانے جاتے ہیں۔تاہم ادارے کی اردو سروس میں پشاور جلسے کے بارے میں چھپنے والی سٹوری جن صاحب کی تخلیق ہے کم از کم میں ان کے نام سے اب تک ناواقف رہا ہوں۔ مبینہ طور پر مبنی بر تعصب سٹوری رپورٹ کرنے والے ان صاحب اور خود نشریاتی ادارے کے خلاف جب ٹویٹر پر معاندانہ ردِّعمل ٹاپ ٹرینڈ ہوا تو فطری طور پر ان صاحب کا پروفائل دیکھنے کو جی للچایا۔معلوم ہوا کہ موصوف ایک جریدے سے کسی زمانے میں منسلک رہے ہیں۔غالباََ یہ وہی ماہانہ مجّلہ ہے ، جو انگریزی اخبار شائع کرنے والے میڈیا ہائوس کی ہی ملکیّترہا ہے۔ اپنے تعارف میں خود کو ’ Sorry Dominion کے جرّی باسیوں سے متعلق سٹوریوں کا متلاشی‘ بتاتے ہیں۔ میں Sorry Dominion کا مناسب اردو ترجمہ کرنے سے تو خود کو قاصر پاتا ہوں، تاہم مجھے یقین ہے کہ اس مایوس کن لقب سے ان صاحب کی مراد یقینا ہمارا وطن پاکستان نہیں۔ ضرور کسی آس پاس کے ملک کی بات کرتے ہوں گے۔ ان صاحب کے ٹویٹر اکائونٹ پر تواتر کے ساتھ ری ٹویٹ کئے گئے درجنوں ٹویٹس دیکھیں تو خاطر خواہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ عمران خان سے وہ اس قدر نفرت کیوں کرتے ہیں۔حالیہ برسوںمیں شہرت پانے والی ایک تنظیم سے وابستہ ایک ایم این اے کہ اسلام آباد، لاہور اور پشاور پر جو امریکی طیاروں کی بمباری کے خواہش مند رہے ہیں، اپنے ٹویٹ کے ذریعے پاکستانی عوام کی حالت ِ زارکو ’ کاوَن ‘ ہاتھی کی طرح ’قابلِ رحم ‘ قرار دیتے ہیں۔چنانچہ ہاتھی کی ’دلدل‘سے نکل کر کمبوڈیا روانگی کو اس کی خوش بختی قرار دیتے ہیں۔اس سر زمین سے کچھ بد بخت افراد کی غیر مشروط نفرت حیران کر دینے والی ہے۔’کاوَن‘ ہاتھی کا تذکرہ کرتے ہوئے، ایک نسبتاََ غیر معروف شخص لکھتا ہے کہ ’کسی ‘ کی نظر اس چڑیا گھر کی زمین پر ہے۔ اس غیر معروف اکائونٹ کے جواب میں پاکستان پیپلز پارٹی کے سرکردہ رہنماء فرحت اللہ بابر بتاتے ہیں کہ ’کسی‘ کی نظر کراچی میں سٹیل مل کی زمین پر بھی ہے۔ تاہم اسی ٹویٹ میں بابر صاحب ہمیں اطمینان دلاتے ہیں کہ زرداری صاحب اور ان کے صاحبزادے کے موجودگی میں ‘کسی‘ کی ہمت نہیں کہ سندھ کی زمین پر قبضہ کر سکے۔ کسی اور کو ہو نہ ہو ،مجھے فرحت اللہ بابر صاحب کی اس بات سے کامل اتفاق ہے کہ زرداری صاحب کے ہوتے ہوئے ’کسی ‘ اور کی کیا مجال کہ سندھ کی زمینوں پر قبضہ اور اس کے وسائل کوتنہا ڈکار سکے۔ تواتر کے ساتھ دیگردرجنوں ٹویٹس جو پشاور جلسے کی متنازعہ سٹوری کے خالق نے اپنے اکائونٹ پر ری ٹویٹ کر رکھے ہیں،یہ سمجھنے کے لئے بھی کافی ہیں کہ موصوف عمران خان کی حکومت کو کٹھ پتلی (Puppet Rule) کیونکر کہتے ہیں۔ برطانوی نشریاتی ادارے کے معروف پروگرام میں میزبان اینکرنے اسحاق ڈار سے جس طرح خالص پیشہ ورانہ انداز میں سوالات کئے ، خود ہمارے ہاں کی کئی ایک سنجیدہ صحافتی شخصیات کی رائے ہے کہ اس میں پاکستانی ٹی وی اینکرز کے سیکھنے کے لئے بہت کچھ ہے۔ ہمارے ہاں فرمائشی انٹرویوز کی روایت کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے یہ رائے قابلِ فہم ہے۔ تاہم جو ہمارے فہم سے بالاتر ہے وہ برطانوی نشریاتی ادارے کی پالیسی میں نظر آنے والا تضاد ہے کہ جہاں ایک طرف تو اپنی انگریزی نشریات میںادارہ انتہائی پیشہ ور انہ شہرت کے حامل صحافیوں کی خدمات حاصل کرتا ہے ، تووہیںدوسری طرف اُردو سروس کے لئے اس کا پیمانہ کچھ اور ہے۔