مسافر اس بار روہتاس قلعہ اور اس کے قرب و جوار میں پہنچا جہاں ہزاروں سال کی تاریخ سانس لیتی ہے۔یہاں یادداشتوں کا امتحان ہوتا اور کتابوں کے متون عاجزی پیش کرتے ہیں۔ قلعہ پانچ سو سال پہلے شیر شاہ سوری نے تعمیر کرایا۔ مقصد یہ تھا کہ مغلوں کے اتحادی مقامی گکھڑوں سے سوری انتظامیہ کو محفوظ ٹھکانہ فراہم کیا جائے۔ صدیوں تک نظر انداز قلعے کے کتنے ہی حصے یہاں کے دیہاتی اینٹوں اور خزانے کے لالچ میں تباہ کرتے رہے جو حصہ بچا ہے وہ بھی اس قدر کہ اسے دیکھنے کے لیے پورا دن چاہیے۔ معلوم نہیں کتنے کمرے‘ سرنگیں‘ باغ،باولیاں اور راہداریاں زمین میں دب چکی‘ صرف احساس ہوتا ہے کہ نیچے کوئی عمارت ہوگی۔ پی ایف سی کے دوست ڈپٹی کمشنر جہلم رائو افضل پرویز کی دعوت پر آئے تھے۔ ان کے اے ڈی سی آر ڈاکٹر وقارنے ان تاریخی آثار کی بحالی کے کام سے آگاہ کیا جس کی منظوری وزیراعظم عمران خان چند ہفتے قبل اپنے دورے کے موقع پر دے چکے ہیں۔ قلعہ روہتاس کے مشرقی پہلو میں ایک بہادر خاتون خیرالنساء کا مقبرہ ہے۔ یہ خاتون زبردست جنگجو تھی اور اس علاقے کو حملہ آوروں سے بچانے کے لیے خود گھوڑے پر بیٹھ کراپنے دستوں کی قیادت کرتی رہی۔ خیرالنساء کے مقبرے تک جانے کاراستہ دشوار اور پیدل ہے۔ مقبرے کی بحالی اور اس تک گاڑیوں کے لیے راستہ بنایا جارہا ہے۔ قلعہ روہتاس کے اندر کسی بھی مقام پر کھڑے ہو کر مغرب کی سمت دیکھیں تو دور ایک کشادہ چوٹی والا پہاڑ نظر آتا ہے۔ یہ ٹلا جوگیاں ہے۔ سکندر اعظم کے آنے سے بھی ہزاروں برس پہلے سے آباد ٹلا جوگیاں۔ یہاں سکندر اعظم سے لے کر مغل اور انگریز حکمران تک آتے رہے۔ یہ درگا دیوی اور شیو شمبھو کا استھان ہے۔ ہندو مت کے ان دو اہم کرداروں کا یہ گھر ہے ۔یہاں بدھ ،ہندو،سکھ اور بعد ازاں مسلمان فقیر بھی چلہ کش رہے ۔گورونانک جس راستے سے ٹلہ جوگیاں پر پہنچے حکومت اسے ’’فٹ پرنٹس آف بابا گورونانک‘‘ کے نام سے الگ منصوبے کی صورت میں تعمیر کر رہی ہے۔ جن آثار کی بحالی کی جا رہی ہے ان میں سے ایک نندنا کا علاقہ ہے۔ یہاں وہ عمارت موجود ہے جہاں البیرونی نے اپنے قیام کے دوران زمین کا قطر ماپا تھا۔ روہتاس قلعہ میں داخل ہوں تو سب سے پہلے شیر شاہ سوری کے ایک جرنیل غواصی کے نام سے منسوب دروازہ عبور کرتے ہیں۔ یہاں سے ایک رہائشی آبادی شروع ہو جاتی ہے۔ یہ ان لوگوں کی اولاد ہے جو شیر شاہ سوری اور مغلوں کے دور میں قلعہ میں مختلف طرح کی خدمات انجام دیتے تھے۔ لڑکیوں کا ایک سکول انگریزوں نے 1885ء کے لگ بھگ یہاں بنا دیاتھا۔ محکمہ آثار قدیمہ کے افسران کو ہمارے آنے کا بتا دیا گیا تھا۔ ایوب نامی گائیڈ نے قلعے کے متعلق بتانا شروع کیا۔ قلعے کے مختلف حصوں کو دیکھتے دیکھتے ہم اس جگہ پہنچے جہاں حکمران کچہری لگایا کرتے تھے۔ اس کے دروازے کے سامنے ممتاز مزاح نگار مرحوم ضمیر جعفری کے جد امجد کا مزار ہے۔ یہاں سے آگے شہنشاہ اکبر کی راجپوت بیوی اور جہانگیر کی والدہ جودھا کے بھائی مان سنگھ اور اس کی چھوٹی بہن سے منسوب عمارات ہیں۔ آٹھ دس برس پہلے آنا ہوا تو یہ کھنڈر تھا۔ اب اس کھنڈر کے اردگرد پختہ راستے بنا دیئے گئے ہیں‘ مان سنگھ کی حویلی کا جو حصہ بچ گیا ہے اس کی دیکھ بھال بھی بہتر ہے۔ مان سنگھ 1550ء میں راجپوتانہ کی ریاست امر میں پیدا ہوا۔ اس ریاست کو اب جے پور کہا جاتا ہے۔ اس کی بہادری اور اس سے قرابت کے باعث اکبر بادشاہ نے اسے اپنے نو رتنوں میںشامل کر رکھا تھا۔ اس کا باپ بھگونت داس حکمران تھا۔ باپ کے مرنے کے بعد مان سنگھ کو پنج ہزاری منصب اور مرزا کا خطاب دیا گیا۔ جلد ہی اسے مغل فوج کے سات ہزار سواروں کا سربراہ بنا دیا گیا۔ کسی غیر مغل کو اس سے بڑا عہدہ کبھی نہیں دیا گیا تھا۔ اکبر اسے فرزند کہہ کر مخاطب کیا کرتا۔ میواڑ کی فتح اسی کی قیادت میں ہوئی۔ اس نے بہار اور اڑیسہ کو فتح کیا۔ بعدازاں اسے بنگال‘ بہار‘ جھاڑ کھنڈ اور اڑیسہ کا گورنر بنا دیا گیا۔ مان سنگھ چھ جولائی 1614ء میں طبعی موت مرا۔ اس کا بیٹا بھائو سنگھ اس کا جانشین بنا۔ ہم اسی مان سنگھ کی حویلی کے ایک حصے پر سیڑھیاں چڑھ کر پہنچے۔ شاید یہ دروازوں کے علاوہ قلعے کا سب سے بلند بچ جانے والا حصہ ہے۔ اوپر کمرے کی چھت کے درمیان لوہے کا ایک کڑا ہے جسے شاید کبھی پنکھا وغیرہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہوگا۔ بدذوق سیاحوں نے دیواروں پر اپنے نام اور بیکار باتیں لکھ دی ہیں۔ مغرب میں کھلتی کھڑکی سے ٹلا جوگیاں نظر آتا ہے۔ سورج اس ٹلے کے عقب میں چھپنے کو تھا۔ سامنے ایک حصے میں وہ جگہ تھی جہاں جلاد مجرموں کو قتل کیا کرتے تھے۔ اس حصے کو بھی بحال کیا گیا ہے۔ دائیں طرف ایک مسجد ہے جس کی وسعت بتاتی ہے کہ کسی زمانے میں قلعہ میں کتنے نمازی ہوا کرتے تھے۔ شام ہورہی تھی۔ یہاں قریب ہی زپ لائن بنائی گئی ہے۔محکمہ سیاحت نے یہاں سہولیات کی فراہمی پر توجہ دی ہے ۔ پرائیویٹ سرمایہ کاری سے مکمل یہ منصوبہ سیاحوں کی دلچسپی کا باعث بن رہا ہے۔ ڈیڑھ کلومیٹر کا فاصلہ 75 کلومیٹر رفتار سے طے ہوتا ہے۔ ملک سلمان اور میں نے حفاظتی بیلٹ باندھے۔ راجہ وقار نے ہماری مدد کی۔ تار سے لٹک کر یہ مہم جوئی ہم نے اب تک صرف فلموں یا اشتہارات میں دیکھی تھی۔ زندگی کے نئے احساسات سے روشنا س کراتا یہ تجربہ پہلے کیوں نہ کیا، یہ سوچ بار بار آئی۔ رات گزارنے کے لیے جہلم شہر کی بجائے قریب جنگل میں کچھ علاقہ صاف کر کے بنائے گئے ریزوٹ کو ترجیح دی۔ دن بھر کے تھکے سیاح اچھے کھانے‘ پرسکون نیند کے لیے پندرہ منٹ میں منزل پر پہنچ گئے۔تھوڑی دیر میں افضل پرویز بھی پہنچ گئے ۔وہ رخصت ہوئے تو بیڈ کی بجائے ہم نے فرش پر گدے ڈال لیئے ۔نیند کب آئی پتہ ہی نہ چلا۔(جاری ہے)