عالم طوفِ حرم سب سے نرالا ہے میاں ایک منظر ہے کہ بس دیکھنے والا ہے میاں رنگ سارے ہی یہاں جذب ہوئے جاتے ہیں اور گردش میں جہاں بھر کا اجالا ہے میاں میں نے حمد سے آغاز اس لئے کیا کہ آج مجھے رمضان کے حوالے سے کچھ عرض کرنا ہے اور اس میں جو روح ہے جسے صبر کہتے ہیں پہلے حمد ہی کے دو اشعار پیش کرنے کی سعادت حاصل کروں گا۔والہانہ کوئی پتھر کو کہاں چومتا ہے اس محبت میں محمدؐ کا حوالہ ہے میاں‘ دیکھو بخشا ہے ہمیں کیسے حرم کا تحفہ اس نے جنت سے اگر ہم کو نکالا ہے میاں۔یہ تو ہمارے کانوں سے مانوس ہے کہ بھائی صبر و شکر کرو یہ توفیق اور عطا ہے میں چاہتا ہوں کہ میں نے جو ایک جگہ یہ خوشہ چینی کی ہے آپ تک پہنچائوں۔ آغاز یہاں سے کرتے ہیں کہ اللہ نے ہر عبادت کا کوئی پیمانہ اور اجر طے کر رکھا ہے مگر ایک روزہ ایسی عبادت ہے جس کا اللہ نے کچھ متعین نہیں کیا اور یہ کہہ کر اس کی فضیلت کو دو چند کر دیا کہ روزہ میرے لئے ہے اور اس کا اجر میں خود ہوں۔ یہ بھی کہا گیا کہ روزہ صبر سے ہے اور روزے کو نصف صبر بھی کہا گیا ہے جیسے کہ صفائی کو نصف ایمان کہا گیا ۔کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ صبر ہی روزہ کی روح ہے صبر کو جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ کہا گیا ایک مرتبہ نبی محترم ﷺ انصار کی ایک محفل میں تھے آپؐ نے پوچھا کیا تم مومن ہو۔سب خاموش رہے تو حضرت عمرؓ نے کہا کہ جی ہم مومن ہیں۔نبی پاکؐ نے پوچھا ایمان کی علامت کیا ہے۔حضرت عمرؓ نے جواب میں کہا ہم آسانیوں میں اللہ تعالیٰ کا شکر کرتے ہیں مشکل میں صبر کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فیصلوں پر راضی ہیں۔آپؐ نے کہا رب کعبہ کی قسم تم مومن ہو۔ ایمان میں کچھ مطلوب بھی ہے یہ جو مطلوبات ہیں انہیں مقامات بھی کہا جاتا ہے صوفیا اسے منازل سالکین بھی کہتے ہیں یہ مطلوبات محمود بھی ہیں۔آپ اسے اخلاقیات کہہ لیں کہ جس میں صبر اور شکر ہے اس میں تین چیزیں اہم ہیں پہلا معارف ہے دوسرے الفاظ میں آپ اسے یقین اور ایمان بھی کہہ سکتے ہیں دوسری چیز احوال ہیں جو معارف ہی سے پیدا ہوتے ہیں اور پھر اعمال ہیں جواحوال ہی کا نتیجہ ہیں۔ایمان کا لفظ ان تینوں پر مجموعی طور پر بولا جاتا ہے اور علیحدہ علیحدہ بھی۔ ہمیں یہاں سے انسان کا اشرف ہونا بھی ظاہر ہوتا ہے ایک طرف فرشتے ہیں یعنی جب غور کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ اصل میں وہ ترغیبات اور کشش ہے جو انسان کے لئے پیدا کی گئی ہے مثلاً جانور اپنے اندرخواہش رکھتے ہیں کھاتے ہیں سوتے ہیں وہ کسی بھی معاملہ میں آزاد ہیں ان کے کوئی مزاحم قوت نہیں۔ایک فرشتے ہیں تو وہ ویسے ہی شہوات و خواہشات سے پاک ہیں وہ ہمہ وقت عبادت میں ہیں ایک انسان ہی ہے جو امتحان میں ہے کہ اس کے سامنے شہوات‘ خواہشات اور ترغیبات ہیں تو اس کے اندر ایک قوت مزاحم کی اللہ نے رکھی ہے بس اسی کو صبر کہتے ہیں۔ صبر کی کئی شکلیں ہمارے سامنے آئی ہیں۔مثلاً ضبط ہے شجاعت ہے وسعت ‘ ظرف اور زہد و تقویٰ ہے اب ان تمام انسانی خوبیوں پر غور کریں تو یہ سب صبر ہی کا نتیجہ ہیں یہ تمام صبر ہی کا حاصل ٹھہریں گے۔مثلاً شجاعت کے مقابلے پر بزدلی ہے۔ بہادر آدمی جو راستہ اختیار کرتا ہے اس میں جان بھی جا سکتی ہے مگر وہ آرام و آسائش کی طرف نہیں جاتا بلکہ اپنے نفس کو اس راستے سے باز رکھتا ہے۔ کئی تہہ دار باتیں سمجھنے والی ہیں صحابہ اکرام کہتے تھے کہ انہیں کیسا کیسا صبر کرنا پڑا کہ ایک صبر تب کرنا پڑا جب تنگی تھی اور مشکلات تھیں یہ ابتدا کا زمانہ تھا پھر جب خوشحالی آئی اور یہ آسائشوں کا زمانہ تھا یہ زمانہ زیادہ مشکل تھا کہ آسائشوں میں کیسے رہنا ہے کہ کہیں غفلت میں نہ پڑ جائیں کئی باتیں تھیں کہ جو سامنے تھیں ایک توازن رکھنا تھا مثلاً اصراف سے منع کیا گیا گویا دوسرے کا صبر پہلے تنگی والے دور سے زیادہ مشکل تھا صحابہ کی زندگی مشعل راہ ہیں اس سے صبر اپنے اندر ایک ضبط بھی تو پیدا ہوتا ہے سبحان اللہ حضرت علیؓ نے فرمایا تھا کہ انہیں سخت گرمی کا روزہ اور جاڑے میں وضو کرنا اور نماز پڑھنا پسند تھا۔روزے کا تذکرہ چلا تو برداشت اور صبر کی باتیں ہوئیں تو غصے کا تذکرہ ہوا کہ غصے میں جب صبر کیا جاتا ہے تو اسی صورت میں حلم پیدا ہوتا ہے نرمی پیدا ہوتی ہے۔ صبر کے ضمن میں ایک عام فہم بات ہے کہ کسی کا کوئی راز یا کسی کی کوئی بات ہاتھ آ جائے تو نفس کہتا ہے اس کو پھیلا دو کہ اس عمل میں انسان کے اندر ایک تسکین کا پہلو ہے مگر روزہ سکھاتا ہے کہ نہیں ضبط کا مظاہرہ کرنا ہے۔غیبت ہی تو ایسے ہی ہے کہ ہمیں مرغوب بھی بہت ہے ایسے ہی لگتا ہے جیسے اپنے مردہ بھائی کا گوشت لذیذ ہو۔صبر اصل میں امتحان ہی ہے اور کامیابی کی صورت میں اجر بھی بہت ہے۔ان باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ روزہ اصل میں ری فریشر قسم کی کلاس ہے روزہ صرف بھوکا پیاسا رہنا نہیں کہ اللہ کو اس سے کوئی مطلب نہیں۔ حاصل میں تو یہ تمام ممنوعہ اشیا سے منع ہو جانا ہے صبر اور شکر کی ڈھال سے اپنی حفاظت کرنا ہے یہ بات کرتے ہوئے دکھ ہوتا ہے کہ وہ مہینہ جب شیطان تک بند کیے جا چکے ہوتے ہیں مگر اس کے سدھائے ہوئے لوگ اس کی غیر موجودگی میں کیسے شیطان کی کمی کا احساس ہی نہیں ہونے دیتے خاص طور پر اشیائے خوردو نوش کیسے مہنگی کر دی جاتی ہیں۔ آخری بات یہ کہ ہمیں روزے کے ساتھ قرآن پاک تراویح میں پڑھنے اور سننے کی طرف توجہ دینی چاہیے میں نے یہ بات خود کو بھی سمجھائی۔ میں نے سوچا کہ رمضان شروع ہونے سے سورۃ البقرہ زبانی یاد کرنی ہے تو الحمدللہ ہو گئی اب میں لفظ لفظ قرآن سے آشنا ہو رہا ہوں قرآن اپنا دامن ایسے کشادہ کرتا ہے کہ بندہ حیران رہ جاتا ہے۔