تین دسمبر دنیا بھر میں خاص افراد کا دن منایا جاتا ہے۔اس روز گل افشاں کی کتاب روشن ستارے پڑھنے سے بہتر اور کیا ہے جس میں سو خاص افراد کے انٹرویو شامل ہیں۔پہلے ایک اقتباس پڑھیے۔ اپنے پہلے بیٹے کی معذوری نے مجھے اور میری بیوی کو اندر سے ہلا کر رکھ دیا تھا۔عمر بھر کے لئے یہ روگ کافی تھاجی کو جلانے کے لئے، لیکن دکھوں کا سلسلہ تھما نہیں دوسرا‘تیسرا اور چوتھا بچہ بھی اسی معذوری کا شکار ہوتا چلا گیا۔یہ دل دہلا دینے والا اقتباس ‘باہمت لکھاری گل افشاں رانا کی کتاب روشن ستارے میں ان کے والد محترم کے لکھے ہوئے مضمون سے لیا ہے۔مضمون کا نام ہے رحمت خداوندی۔اللہ اللہ۔جس تحریر میں محترم رانا عبدالرشید اپنے چار جوان بچوں کی معذوری کا تذکرہ کر رہے ہیں، اس تحریر کا عنوان رحمت خداوندی ہے۔گل افشاں سے میرا پہلا تعارف فیس بک کے ذریعے۔میرے علم میں نہیں تھا کہ وہ کچھ حوالوں سے خاص افراد میں شمار ہوتی ہیں۔نازک سے دھان پان سی گل افشاں زندگی کے بارے میں خوب صورت خواب رکھنے والی لڑکی ہے‘جس کا اظہار وہ اپنی شاعری اور بچوں کے لئے لکھی جانے والی دلپذیر کہانیوں میں کرتی رہتی ہے۔جب میرے علم میں بات آئی کہ گل اافشاںں وہیل چیئر پر بائونڈ ہے تو میں اس کی ہمت کی داد دیے بغیر نہ رہ سکی۔لیکن جب مجھے یہ علم ہوا کہ گل افشاں کے تین اور بہن بھائی بھی اسی معذوری کا شکار ہیں تو یہ میرے لئے ایک دھچکے سے کم نہ تھا۔ پاکستانی معاشرے میں جہاں مکمل صحت مند افراد کے لئے بھی قدم قدم پر رکاوٹیں اور مسائل کے پہاڑ کھڑے ہوں وہاں ایک ہی گھرانے میں چار جوان بچوں کا وہیل چیئر بائونڈ ہونا اس گھرانے کے لئے کس کس طرح کی مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔آفرین ہے ان کے محترم والد پر جنہوں نے اپنے بچوں کی سہولت اور آسانی کے لئے دو منزلہ گھر میں لفٹ کا انتظام کروایا۔گھر بناتے ہوئے یہ معاشی بوجھ اس لئے برداشت کیا کہ ان کے چاروں بچے پورے گھر میں آسانی سے آ جا سکیں اور کہیں بھی رکاوٹ محسوس نہ کریں۔گل افشاں رانا ایسے ہی حساس باپ کی قابل بیٹی ہے۔اس نے فیصل آباد کے ایک گھر میں بظاہر اپنے کمرے تک محدود رہنے والی‘وہیل چیئر بائونڈ افشاں زندگی کے کینوس میں جس طرح حوصلے اور امید کے رنگ بھر رہی ہے وہ ہم سب کے لئے ایک مثال ہے۔میرے ہاتھ میں اس کی کتاب روشن ستارے موجود ہے جس میں اس نے پاکستان بھر سے سو خاص افراد سے انٹرویو کئے ہیں۔یہ وہ خاص افراد ہیں جو کسی نہ کسی جسمانی معذوری کا شکار ہیں مگر زندگی میں ہمت ہارنے کو تیار نہیں۔اپنے ناقابل شکست جذبوں کی بدولت وہ ان تمام افراد کے لئے ایک روشن مثال ہیں۔جو تمام جسمانی نعمتوں سے آراستہ ہونے کے باوجود زندگی میں ہمت ہار دیتے ہیں۔گل افشاں نے سو خاص افراد یعنی سو معذور افراد کے انٹرویوز کر کے اسے کتاب روشن ستارے میں اکٹھا کیوں کیا اس کا محرک جاننا بہت ضروری ہے۔ پنجاب کے ایک وزیر نے انتہائی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے جسمانی طور پر سپیشل افراد کے حوالے سے بعض دل دکھانے والی باتیں کیں تو اس کے ردعمل میں گل افشاں رانا نے اس کتاب پر کام کرنا شروع کیا اور مختصر مدت میں ایک بہترین کتاب قارئین تک پہنچائی۔ یہ کتاب صرف معذور افراد کے انٹرویوز پر ہی مبنی نہیں بلکہ گل افشاں نے اس میں خصوصی افراد کا پورا مقدمہ کامیابی سے پیش کیا ہے۔خصوصی افراد کے بارے میں مذہب کیا کہتا ہے۔خصوصی افراد کے آئینی حقوق کیا ہیں۔ماہرین نفسیات کس طرح خصوصی افراد کے نفسیاتی مسائل کی گرہ کھولتے ہیں۔ اگر گھر میں کوئی خاص بچہ موجود ہے تو اس کی پرورش کے حوالے سے گھر والوں خصوصاً والدین کو کن کن بنیادی چیزوں کو مدنظر رکھنا چاہیے۔معذور افراد اگر زندگی میں ہمت حوصلے سے کام لے کر زندگی کی دوڑ میں شامل ہو جا ئیںتو پھر ان کی شادی کا مرحلہ ہمارے جیسے معاشرے میں ایک ایسا پہاڑ دکھائی دیتا ہے جس کو سر کرنا مشکل ہے۔اس کی وجہ معاشرتی سیٹ اپ اور لوگوں کے رویے ہیں۔پھر مجموعی طور پر ایک ایسا معاشرہ ایسا نظام جہاں مکمل صحت مند افراد کے لئے بھی زندگی کی بنیادی سہولتیں میسر نہیں وہاں جسمانی حوالوں سے خاص افراد کی خاص ضرورتوں کو یہ بے حس معاشرہ بری طرح طرح نظرانداز کرتا ہے۔یہ تمام اہم موضوعات جو اس کتاب میں ڈسکس کئے گئے ہیں ان میں چند اقتباسات کالم میں شامل کرنا ضروری ہیں کہ آج کے دن جو خاص افراد کے نام کیا گیا ہے۔ان کے مسائل بھی سامنے آ سکیں۔خصوصی افراد کے بارے میں پاکستان کا آئین کیا کہتا ہے اس حوالے سے حقائق بہت افسوسناک ہیں۔پاکستان کے آئین کے مطابق بدقسمتی سے معذور افراد کے حقوق کے سلسلے میں ہمیشہ ناانصافی کی گئی۔ایک سوال جو پوچھا گیا اس کی حساسیت ملاحظہ فرمائیے یہ اذیت وہی جانتا ہے جس پر گزری ہو۔ایڈووکیٹ سپریم کورٹ مجتبیٰ حیدر شیرازی سے سوال کیا گیا کہ معذور افراد کا تمسخر اڑانے یا دل آزاری سے متعلق کوئی قانون موجود ہے جس کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ پاکستان میں ایسا کوئی قانون موجود نہیں کہ معذور افراد کا تمسخر اڑانے والے کو سزا دی جا سکے۔اسلام میں معذور افراد کا تمسخر اڑانے پر سخت وعید سنائی گئی ہے۔ گل افشاں کی کوشش قابل قدر ہے۔انہوں نے اپنا حصہ بہت خوب ڈالا ہے۔آئیے ہم بھی سوال اٹھائیں کہ پاکستان میں جمہوری اور مارشلائی حکومتیں آئیں اور گئیں۔مگر کسی نے بھی معذور افراد کو معاشی طور پر اپنے پائوں پر کھڑا کرنے اور ان کے دیگر بنیادی حقوق کے حوالے سے کوئی جامع پالیسی کیوں نہیں بنائی۔؟ الیکشن میں معذور افراد بھی قطاروں میں اذیت اٹھا کر ووٹ ڈالتے ہیں مگر ان کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی حکومتوں نے کبھی ایسے قرضوں کا اجراء نہیں کیا جو صرف اور صرف معذور افراد کو معاشی طور پر خودکفیل بنانے کے لئے ہوں۔ ہر پبلک پلیس ‘ہوٹل‘ شاپنگ مال‘ کالج یونیورسٹی‘ سرکاری دفاتر میں خصوصی افراد کی رسائی آسان بنانے کے لئے وہیل چیئر کے خصوصی راستے کیوں نہیں بنائے جاتے؟ اس غفلت کی بڑی وجہ یہ ہے کہ آئین پاکستان میں معذور افراد کے حقوق کی وضاحت نہیں کی گئی؟ریاست کے آئین میں معاشرے کا اتنا اہم طبقہ کیسے نظر انداز ہو گیا۔یہ ہمارے لئے شرم کی بات ہے۔آج کے دن اسی سوال کا جواب اہل اختیار سے پوچھیں۔!