روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف دو روزہ دورہ پر پاکستان پہنچے اور اہم معاملات پر پاکستانی حکام کے ساتھ تبادلہ خیال کیا۔دو طرفہ تعلقات میں آئے طویل جمود اور دونوں ممالک کی نئی ضروریات کے تناظر میں اس دورے کی اہمیت دو چند ہو جاتی ہے۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور دیگر اعلیٰ حکام کے ساتھ بات چیت میں معاشی و دفاعی شعبے کے علاوہ اہم علاقائی و بین الاقوامی امور میں ایک دوسرے کی رائے کو سمجھنے کی کوشش کی گئی۔ چین کے ساتھ قریبی تعلقات کی وجہ سے پاکستان روس کے قریب ہوتا جا رہا ہے۔چینی وزارت دفاع کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق گزشتہ برس روس کے جنوب میں ہونے والی فوجی مشقوں میں نہ صرف چین بلکہ پاکستان بھی شریک ہوا۔ ان فوجی مشقوں میں بیلاروس، ایران، میانمار اور آرمینیا کے فوجی دستے شامل تھے۔ان فوجی مشقوں کی غیرمعمولی اہمیت کی وجہ سے روسی دفاعی و سیاسی تجزیہ کار وں کہنا تھا کہ نریندر مودی کی پالیسیوں کی وجہ سے ایشیا میں روس، چین، پاکستان، ایران اور ترکی کا باہمی اتحاد ابھر رہا ہے۔بھارتی تھنک ٹینک آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن (او آر ایف) کا کہنا ہے کہ روس اور امریکا کے مابین خراب ہوتے تعلقات نے چین روس اتحاد کو مضبوط بنا دیا ہے۔ امریکی پابندیوں کے بعد روس نے چین کی طرف رخ کر لیا ہے۔ چین کے ذریعے روس کے پاکستان کے ساتھ تعاون اور بات چیت میں اضافہ ہو جائے گا۔حالیہ کچھ عرصے میں پاکستان کے نہ صرف روس بلکہ ترکی کے ساتھ روابط میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ کشمیر پالیسی پر انقرہ نے اسلام آباد کا کھل کر ساتھ دیا ہے۔ اسرائیلی تھنک ٹینک یروشلم سینٹر فار پبلک افئیرز کی ایک تجزیاتی رپورٹ کے مطابق مستقبل میں پاکستان اور ایران کے تعلقات بھی مزید مضبوط ہو سکتے ہیں، کیوں کہ ایران کو چینی سی پیک منصوبے میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ سردجنگ کے دوران ہونے والی صف بندی نے پاکستان اور روس کے تعلقات کو پنپنے نہ دیا۔دونوں ایک دوسرے پر کامل اعتماد نہ کر سکے۔ ماضی کے ناخوشگوار تعلقات اور مسائل سے جان چھڑا کر دونوں ممالک نے نئے آغاز کا فیصلہ کیا تو بااعتماد دوست چین کی معاونت پاکستان اور روس کے درمیان بداعتمادی کے خاتمہ کا ذریعہ بنی۔روس کو پاک امریکہ تعلقات اپنے مفادات کے لئے خطرہ معلوم ہوئے جبکہ پاکستان بھارت کے ساتھ روس کے تعلقات پر شاکی رہا۔افغانستان میں پاکستان کے اثرورسوخ اور پھر خطے کی معیشت و سکیورٹی پر افغان تنازع کے اثرات کا جائزہ روس چین اور ایران کو اس نکتے پر مرکوز کرتا ہے کہ خطے کے ممالک کے درمیان تعلقات کو مضبوط اور مستحکم بنایا جائے۔سٹریٹجک اور دفاعی شعبے میں پاکستان روس کے ساتھ ایٹمی ٹیکنالوجی‘خلائی سائنس ‘صنعتی ٹیکنالوجی میں باہمی تعلقات فروغ پا رہے ہیں‘افغانستان سے امریکی انخلاء کے لئے جو منصوبہ ترتیب دیا جا رہا ہے اس میں امریکہ نے روس اور چین سے مدد حاصل کی ہے۔ماسکو میں طالبان افغان دھڑوں اور اشرف غنی حکومت کے درمیان مذاکرات کا دور مکمل ہو چکا ہے۔ افغان تنازع کے حل کے بعد پاکستان‘ روس ‘ چین اور ایران ہی نہیں ترکی‘آذر بائیجان اور دوسرے ممالک بھی اس بلاک کا حصہ بن سکتے ہیں۔نائن الیون کے بعد امریکہ نے پاکستان کو دفاعی آلات ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی کی فراہمی روک دی۔ دوسری طرف امریکہ‘ فرانس اور اسرائیل بھارت کو سالانہ اربوں ڈالر کے ہتھیار اور ٹیکنالوجی فراہم کر رہے ہیں۔پاکستان کو طاقت کا توازن برقرار رکھنے کے لئے جہاں مقامی پیداواری صلاحیت کو بڑھانے کی ضرورت ہے وہیں جدید آلات کے لئے چین اور روس پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے۔ ایسے وقت میں جب بھارت امریکہ کے ساتھ سٹریٹجک شراکت داری مستحکم کر رہا ہے پاکستان اور روس کے مابین تعلقات کا فروغ مثبت اثرات کا حامل ہو گا۔ پاکستان اور روس کی دفاعی سوچ میں کئی امور ایک دوسرے سے مماثل ہیں۔روس کی طرح پاکستان ایٹمی ہتھیار پہلے استعمال کرنے‘ سٹریٹجک ڈیٹرنس کو میدان جنگ کی ڈیٹرنس میں ڈھالنے اور تنازع کو پھیلانے کے بعد اسے سمیٹنے کے متعلق ایک جیسی صلاحیت اور فکر رکھتے ہیں۔پاکستان میں سوویت یونین کے ساتھ مختصر عرصہ کے دوستانہ تعلقات کی یادگار پاکستان سٹیل مل ہے۔سوویت یونین کی جانب سے مفت گندم کی ضروریات پوری کرنے کی پیشکش پر ہی امریکہ نے ابتدا میں پاکستان کو گندم کا تحفہ ارسال کیا۔ دونوں ملکوں کے درمیان صنعتی پیداوار کے شعبے کے ساتھ اب سی پیک کا منصوبہ فعال کردار ادا کر سکتا ہے۔روس اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن ہے۔ پاکستان کو کشمیر‘آبی جارحیت اور دہشت گردی سے متعلقہ معاملات میں ایسے دوستوں کی ضرورت ہے جو سلامتی کونسل میں اس کے مفادات کا تحفظ کر سکیں۔ حافظ سعید ،حزب المجاہدین اور مولانا مسعود اظہر کے معاملات پر چین نے پاکستان کی ہر ممکن مدد کی۔ پچھلے کچھ برسوں کے دوران پاکستان اور روس دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے مل کر کام کر رہے ہیں۔روسی حکام پاکستان کے تبدیل منظر نامے کو قبول کر کے آگے بڑھنے کو آمادہ ہیں۔ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف کے دورے سے رابطے بحال ہوں گے۔ معاشی‘دفاعی اور ثقافتی سطح پر کام کرنے والے گروپوں اور ماہرین کو ایک دوسرے کا نکتہ نظر اور مفادات کو سمجھنے کا موقع ملے گا۔توانائی کے شعبے میں پاکستان کی بڑھتی ضروریات کو روس پورا کر سکتا ہے۔ اقتصادی اشتراک کا ایسا منصوبہ روبہ عمل آ سکتا ہے جو دوسرے کئی شعبوں میں معاون ثابت ہو۔ امکانات کی وسعت موجود ہے جس کی امید روسی وزیر خارجہ کے دورے سے ابھری ہے۔