بابا وڑائچ ایک ایسا پنجابی بزرگ تھا، جسے مالی فراخی نے بڑھاپے کے روایتی چڑچڑے پن کی بجائے لطف و انبساط عطا کر رکھا تھا۔ ان کی شخصیت میں ایک ڈیرے دار جٹ اور بین الاقوامی مشاہدہ گھل مل گئے تھے۔ بلھے شاہ اور میاں محمد بخش کے کلام کے حوالوں اور تاریخ کے تڑکے سے گفتگو کو دلچسپ بنانے کا ہنر جانتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ تین چار دہائیاں قبل ہیر وارث شاہ، قصہ سیف الملوک، داستانِ یوسف زلیخا، سعدی کی معروف حکایات اور میاں محمد بخش کے دانشوارانہ اشعار کا مطالعہ بلکہ مترنم پیشکش ہماری دیہاتی تہذیب کا حسن ہوا کرتے تھے۔ گھروں اور ڈیروں میں ’کہانی سنو!‘ کا کلچر عروج پر تھا، تفریح کے ساتھ ساتھ ہر داستان کی تان کس اخلاقی درس یا تاریخی تجربے پہ ٹوٹتی تھی۔ کہانیاں، لوک شاعری، بجھارتیں اور اکھان سنتے سنتے نسلوں کی تہذیب ہوتی جاتی تھی۔ بابا جی باتوں باتوں میںفرمانے لگے: ’دنیا کا سب سے بڑا جرم جہالت ہے، لالچ، خود غرضی، ہوس، حسد، اس کے لاڈلے بچے ہیں۔ اسلام تو علم و حکمت کے پیروکاروں کا دین ہے، قرآن میں جاہلوں کی بابت ’قالو سلاما‘ کا حکم ہے۔ اس جرم کی کڑی سزا ہونی چاہیے۔ اسی کو برقرار رکھ کے ہمارے سیاست دان اپنی مرضی اور خود غرضی کا چورن بیچتے رہتے ہیں۔ ہمارے لالچی حکمرانوں کی جہالت انھیں پتہ ہی نہیں چلنے دیتی کہ انسا ن محض پچیس گرام آکسیجن پر زندہ ہے۔ جسم کوپانی نہ ملے تب موت، جسم سے پانی نہ نکلے تب موت! ہماری تو تاریخ بھی دلچسپ ہونے کی بجائے عبرت انگیز ہے۔ شاہجہاں نے مری ہوئی بیگم، جس کا نمبر آٹھواں تھا اور جو چودھویں بچے کی ڈلیوری میں فوت ہوئی تھی، کے لیے تاج محل بنایا، جس کے لیے پتھر راجھستان سے ہاتھیوں پر آیا، اس محل کے بنانے میں گیارہ سال لگے، بیس ہزار مزدور مسلسل کام کرتے رہے، وسیع پیمانے پر خرچ ہوا… اور سگے بیٹے نے پکڑ کے ایک کمرے میں بند کر دیا، اس پہ بھی تسلی نہ ہوئی تو آنکھوں میں سلائیاں پھروا دیں۔ چھوٹی موٹی خواہش کی تو طنز کے طرارے میں اڑا دیا۔‘ حاجیوں کی بس مکہ سے مدینہ کی جانب فراٹے بھر رہی تھی۔ کینیڈا اور پاکستان کا طویل تجربہ رکھنے والے بابا جی موڈ بھی روانی میں تھے۔ فرمانے لگے: ’ہمارے تاجر، آجر یا سرمایہ دار جانتے ہی نہیں کہ پیسہ چھیننے، بٹورنے، چرانے سے نہیں بانٹ چونٹ کر کھانے، کھلانے سے بڑھتا ہے۔ عوام کو صبر، برداشت کا درس دینے کے لیے پہلے اس کی مثال بنا جاتا ہے۔ مخدوش حالات میں ہمارے نبیؐ کی طرح پہلے خود پیٹ پہ پتھر باندھنا پڑتے ہیں۔ عام آدمی کو دوسری چادر کا حساب دینا پڑتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ چھینا جھپٹی، داؤ فریب یا عیاری مکاری سے حاصل کیا گیا سرمایہ ایک نہ ایک دن عبرت کی کسی بد رَو یا گٹر میں جا گرتا ہے، جو قیامت تک اس دولت مند سے عذاب بن کے چمٹا رہتا ہے۔ آنے والی نسلوں کے گل چھرے اس جھلسانے والی آگ پر تیل کا کام کرتے رہتے ہیں۔ ہماری اشرافیہ اور سیاست دانوں کے لامحدود اندرونی و بیرونی اثاثے کس سے ڈھکے چھپے ہیں؟ لیکن لوگوں کے دلوں میں ان کی عزت ٹکے کی نہیں۔ یہ تو کسی ملک میں بھیک مانگنے بھی جائیں تو ان کے کروفر دیکھنے والے ہوتے ہیں۔ پاکستان کی سابق ’جمہوری‘ وزیرِ اعظم بے نظیر نے ۱۹۹۰ء میں جاپان کے دورے پر پچیس لاکھ کا کوٹ خریدا تو جاپان کے لوگوں نے انگلیاں دانتوں میں داب لیں۔ جاپانی اخباروں نے شہ سرخیاں لگائیں کہ ایک غریب اور قرض پہ پلنے چلنے والے ملک کی وزیرِ اعظم کا شاہانہ انداز دیکھیے۔‘ ’کبھی ہم داستانوں میںسنا کرتے تھے کہ لوگ سونا اچھالتے ہوئے جاتے، کوئی آنکھ بھر کے دیکھتا نہ تھا، یہاں آ کے آپ نے حقیقت میںدیکھ لیا کہ بازاروں میں دکانیں سونے سے بھری ہوئی ہیں، بعض لوگ کھلی چھوڑ کے نماز کے لیے چلے جاتے ہیں، خریدنے والے کے علاوہ کوئی آنکھ اٹھا کے نہیں دیکھتا۔ قانون، لائ، ضابطہ، اسی چیز کا نام ہے اور پوری دنیا میں ترقی کا یہی راز ہے۔ یہاں رمضان میں سب کاروبارِ زیست رات کو ہوتا ہے، دفاتر، تعلیمی اداروں، نمازوں کے یکساں اوقات مقرر ہیں، جس پہ کوئی معترض نہیں ہوتا، خلاف ورزی نہیں کرتا کیونکہ لوگوں کو معلوم ہے کہ حکمرانوں نے یہ سب سوچ سمجھ کے اور ہماری بہتری کے لیے کیا ہے، کوئی ان کی نیت پہ شک نہیں کرتا۔ مسجدِ نبوی یا بیت اللہ میں کوئی رفع یدین کا جھگڑا نہیں، کوئی گٹے ننگے کرنے کی تلقین نہیں کرتا، آمین اونچی آواز میں کہنے یا خاموشی پر کوئی پابندی نہیں۔ اگر کہیں کوئی بدنظمی محسوس ہو تو جان لیں کہ کوئی اپنا ہی بھائی بند موجود ہے۔ مَیں امریکا، کینیڈا، برطانیہ بھی گیا ہوں۔ کوئی قانون سے بالا ہونے کی سوچ بھی نہیں سکتا۔‘ بابا جی اپنے کثیر الاقوامی تجربات بیان کر رہے تھے کہ بس والوں کی طرف سے سوال آیا کہ تھوڑا بہت سستانے یا تازہ دم ہونے کے لیے بس کہاں روکی جائے؟ بابا جی جو باتھ روم جانے، ہاتھ پاؤں کھولنے یا تازہ ہوا کے لیے بے چَین نظر آ رہے تھے، جھٹ بول اٹھے:’’جتھے مرضی کھلارو، سانوں ایس کڑِکّے چوں تے کڈو !‘‘ چاروں جانب سے بند اور لوگوں کو سیٹ بیلٹ میں جکڑ کے مسلسل بھاگی جا رہی بس کے لیے یہ با معنی استعارہ تھا۔ ہم دونوں کے اقربا نے ہماری گفتگو کے تیور اور موقع محل دیکھ کے ہمیں پاکستانی سیاست دانوں کے بارے میں بد دعائیہ الفاظ استعمال کرنے سے دبے لفظوں میں منع کر دیا تھا، چنانچہ ہم نے اپنے ملک کے حال اور مستقبل پہ اثر انداز ہونے والے کرتا دھرتاؤں کے لیے بغیر نام لیے کچھ بے ضرر اور جنرل قسم کی دعائیں تجویز کیں، جو کچھ اس قسم کی تھیں: ’یا االلہ! ہم نہیں جانتے، تُو جانتا ہے کہ ہمارے اس ملک کو زوال آشنا کرنے والا کون کون ہے۔ بہرحال جو بھی اس کے ساتھ مخلص ہے اور جو خائن اور بد دیانت ہے، ان کی الگ الگ پہچان کے لیے غلط لوگوں کے کان گدھے سمان کر دے، دانت ہاتھی کے دکھانے والے دانتوں کے مماثل ہو جائیں، گردن زرافا کی گردن کا ناپ لیتی ہوئی… پاؤں ایسے کہ لوگ کہہ سکیں ’ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں‘…لمبا ہاتھ مارنے کے بازو ان کی ٹانگوں سے بھی طویل کر دے… ان کے باتھ روم اتنے بڑے کر دے کہ صابن پکڑنے جائیں تو کھلیاں پڑ جائیں… کار اتنی بڑی ہو کہ ڈرائیور تک آواز نہ پہنچے… بیڈ اتنا اونچا ہو کہ اترتے اترے شام ہو جائے… جس چیز کو ہاتھ لگائیں سونا ہو جائے (بلا محاورہ و مبالغہ)… یہ سب اپنا اچھا یا برا انجام بہت جلد اپنی آنکھوں سے دیکھیں… آخری یہ کہ اس پوِتر نام والے ملک کو ناپاک لوگوں سے پاک کر دے۔ ہر پارٹی اسلام کا نام استعمال کرتی ہے، تُو یہاں اصلی والا اسلام نافذ کر دے۔ جاتے جاتے وطنِ عزیز کو یاد کر کے انھوں نے اپنی تان اس نظم پہ توڑی: جنگل دا قانون او بچڑا/ جنگل دا قانون ہر شے خونوں خون او بچڑا/ جنگل دا قانون کسے نوں کجھ وی سمجھ نہ آوے سب دے ہتھ وچ فون او بچڑا/ جنگل دا قانون اوہو ’پ‘ تے ’نون‘ او بچڑا/ جنگل دا قانون